منصور آفاق ۔ غزل نمبر 604
ہجر کو تاپتے تاپتے جسم سڑنے لگا ہے
اس لِونگ روم کا وال پیپر اکھڑنے لگا ہے
گھر کے باہر گلی میں بھی بکھرے ہیں پتے خزاں کے
کیسا تنہائی کے پیڑ سے درد جھڑنے لگا ہے
خواب جیسے دریچے میں آتی ہے دوشیزہ کوئی
کچھ دنوں سے مرا چاند پر ہاتھ پڑنے لگا ہے
اک تو بالشتیے ہم، پلازوں کی اونچائی میں ہیں
دوسرا شہر میں آسماں بھی سکڑنے لگا ہے
آندھیاں اور بھی تیز رفتار ہونے لگی ہیں
اب تو یہ لگ رہا ہے کہ خیمہ اکھڑنے لگا ہے
منصور آفاق