منصور آفاق ۔ غزل نمبر 397
اپنی بستی میں کہیں امن و اماں ہے کہ نہیں
اس جہنم میں کوئی باغ جناں ہے کہ نہیں
حلقہ زن ہوکے درِ دل پہ پکارے کوئی
زندگی تیرے لئے بارگراں ہے کہ نہیں
جس میں شہزادیاں سوئی تھیں بوقت تقسیم
اب وہ بستی میں تری اندھا کنواں ہے کہ نہیں
جو کسی کو بھی برہنہ نہیں ہونے دیتا
آسماں پر وہ سیہ پوش دھواں ہے کہ نہیں
خانۂ خاک تو آباد بتانِ زر سے
آسماں پر بھی کہیں تیرا مکاں ہے کہ نہیں
میرے جیسوں کو بتاتا ہے جو رستے کا پتہ
اُس ستارے کا کہیں نام و نشاں ہے کہ نہیں
منصور آفاق