ہنر مند زیطہ
اکیلی گلی کی خدائی میں چُھپ کر
بناتا ہے سّیارو سالم، توانا و بے عیب جسموں کو کسبِ زیاں سے
اپاہج
یہیں اُس کی مشاق ترشی ہوئی انگلیاں خام کی خامیوں سے
کمالات کے چاک پر وہ نوادر بنائیں
جو حےران کر دیں
یہ پہلو میں لٹکے ہوئے بازوؤں کا تماشا
یہ آنکھوں سے پِھسلی ہوئی روشنی کی نمائش
یہ بہروپ کے اُبٹنوں سے سنوارے ہوئے مسخ و مسکین چہرے
یہ کتنی ہی قسموں کے بے آسرا بے سہارابھکاری
جو اپنی فغاں سے
گزرتے ہوئے نیک دل راہ گیروں کو تسخیر کر لیں
کرشمہ ہیں اُس کی ہنرکاریوں اور پیشہ وری کا
ہنرمند زیطہ
جراحت کے آلات، حکمت کے نسخوں سے اہلِ جہاں کو
شفا بخشتا ہے
مفادِ زر و زور و دانش کی خاطر
بدلتا ہے کتنے ہی حیلوں وسےلوں سے اصلیتیں خلقتوں کی
زمانے کے آئےن میں اُس کے خفیہ مصنف نے لکھا یہی ہے
سفر پر چلو تو
سزا و جزا، پندو تلقین، رسم و روایت کا زادِ سفر ساتھ رکھو
گلوں میں لٹکتا رہے روزمرہ کا طوقِ ضرورت
زمیں کا خلیفہ
جبلّت، انا اور طبعِ مخالف کی تہذیب کر کے
مسافر کو دیتا ہے پروانہءِراہداری
بدن مہرِ حاکم سے داغے ہوئے اور تلووں
میں ٹھونکی ہوئی استقامت کی نعلیں
بندھے قاعدے، نظریے اور تجرید۔۔۔۔ آنکھوں
کو یک سمت رکھنے کی اندھیاریاں جو
حدوں میں رکھیں گور تک آدمی کو
عجب ہیں خداوندِ دنیا کی محتاجیوں کے نمونے۔۔۔۔ گداگر
ہنرمند زیطہ
کروں، لامکانوں، زمانوں کا آقا
مجھے جس نے مٹی سے بہرِ تماشا اُٹھایا
مجھے میرے مثبت کو منفی سے، سیدھے سے اُلٹے
کو پیوست کر کے بنایا
کہ میں اپنے ہاتھوں خجل اپنی ضِد، اپنی حد، اپنی مجبوریوں
کے پلستر میں مفلوج باہوں کو باندھے ہوئے روز کے اس اندھیرے
اُجالے میں اُس سے
زمانے کے ہاتھوں میں پہلے سے گروی شدہ عمر کی بھیک مانگوں
مری خاک کے اندروں نیند میں چلنے والی
تمنا کی آنکھیں
ادھورے میں پورے کا سپنا جگائے
مجھے ایک بے صرفہ جہدِ مسلسل پہ مامور رکھیں
وہ میرے تماشے کا میلہ لگائے
سدا مجھ کو بے چارگی میں مجھے ہی دکھائے