عمر۔۔۔۔ ادھورا لمحہ وقت کی کایا کا
پیاسی سہ پہروں سے آگے
رات کی رُت میں
سپنے کی بہتی ندی کی مدھم سی آواز سنائی دیتی ہے
اور میں سرگوشی میں اس سے کہتا ہوں
جانِ من!
یہ جنموں کی وہ بستی ہے
جس کے سبز علاقے میں ہم دونوں کا سنجوگ ہوا
اور جہاں رنگوں، خوشبوؤں کے اُس گزرے موسم میں
یادوں کا اک آنگن ہے۔۔۔۔
جس کے پیچھے کے کمرے میں
نقب لگا کر
مجھ کو خود معلوم نہیں کیا چیز چُرانے جاتا ہوں
برسوں کے روزن سے آتے
نم آلود اجالے میں
چیزوں کی بدلی بوسیدہ شکلوں کو
اُلٹ پلٹ کر تکتا ہوں
اور اندھیری گونج کی لمبی راہداری سے
ہاتھ کا خالی کاسہ تھامے
لوٹ آتا ہوں
آفتاب اقبال شمیم