پیاسوں کے لئے ایک نظم

ہم وارث تختِ تمنا کے

ٹھہرے منظرکے سائے سے کب نکلیں گے

دُکھ کی دیروز سرائے سے کب نکلیں گے

ہم آب سراب کے دریا کو

دریا، کیسے تسلیم کریں

اے دل والو!

کچھ چھینٹے شوقِ تغیر کے ہم پر ڈالو

دھڑ پتھر کے متحرک ہوں

ہم وارث تختِ تمنا کے

سانسوں کی حبس حویلی میں، جینا اپنا معمول کریں

آتہمتِ کفر قبول کریں

آبرسیں ٹوٹ کے آنکھوں سے

مرجھائے وقت کی ظلمت کو، سیراب کریں

پھر نشوونما کا شجر اُگے

اِمکان کے فردا زاروں میں

پھر موسم کے میخانے کا در کھل جائے

میخواروں پر، دروازہءِمنظر کھل جائے

پھر عرش، زمیں کی باہوں میں

باہیں ڈالے

اس بستی کی، دہلیز پہ آکر رقص کرے

ہر لمحے کی پھلواری میں

طاؤسِ تغیّر رقص کرے

آفتاب اقبال شمیم

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s