تمہیں معلوم ہی کیا’ کون ہوں میں
کون سے ملتے بچھڑتے پل کے سنگم پر
کسی اسرار نے اپنی سنہری دھڑکنوں کی تال پر
مٹی سے بالیدہ کیا مجھ کو
تمہیں معلوم ہی کیا
اُس جہانوں کے جہاں والے نے
کس خوش بخت کو شہزادگی بخشی
چٹکتے کیسری لمحے کی بے سایہ زمینوں کی
تمہیں تو چاہئے تھا وقت سے لمحہ چرا کر
مجھ سے ملتے اُس ابد آباد جہلم کے محلے میں
جہاں کی تنگنائی سے افق کی وسعتوں تک
سرحدیں تھیں میری کشور کی
کہاں مہلت ملی تم کو
کہ آ کر دیکھتے آوارگی کے تخت پر اُڑتے سلیماں کو
کبھی تم دیکھتے آ کر
صبا کے ساتھ قصرِ خواب کی پھلواریوں میں گُھومتی
اُس موج پِیچاں کو
تمہیں معلوم ہی کیا، کون ہوں میں
ایک چوتھائی صدی سے عمر کی لمبی گلی میں
روز ہی جاتا ہوں دریوزہ گری کرنے
زمیں زادہ خداوندانِ نعمت کے دروں پر نوکری کرنے
آفتاب اقبال شمیم