ایک ہارا ہوا دِن(اپنے پیشرو کے نام)

مجھے مایوس کر دو نا!

یہ کارِ لفظ دوزی۔۔۔۔ جس سے جذبوں اور خیالوں کو

منقش کرتا رہتا ہوں۔۔۔۔

اِسے بے کار سمجھوں

اور برسوں کی بچت کے قطرہ قطرہ وقت سے

لکھی ہوئی نظموں کی اس ساری کمائی کو

جلا ڈالوں

مجھے مایوس کر دو نا!

تمہاری ہی طرح میں بھی کسی بے نام بے آشوب

گوشے میں

شکستہ کرکے آئینے حوالوں اور مثالوں کے

مٹا کر وہم، زورِ لفظ سے کچھ کر گزرنے کا

لگالوں اپنے گردا گرد باڑیں روزمرہ کی،

دُھواں پیتے ہوئے

کھاتا رہوں معمول کی خوراک میں

محدود سی مقدار رنج و شادمانی کی

چڑھے جب دن تو میں

تپتی ہوئی شب کی سرائے سے نکل کر دھوپ کے نخلِ سکون افشاں کی

چھاؤں میں ذرا بیٹھوں

اکیلا کھیلتے دیکھوں اُجالے کے لڑکپن کو

گزرتے پہر کے ٹیلے پہ چرھ کر جو گیا ہوتے سنہرے میں

رہوں

تازہ شجر کی ڈال پر سورج کے پکنے تک

پرندوں کے بسیرے سے اُترتے شور کی گت پر

نئے دن کے خبرنامے کی سنگت میں

برابر ہیں سبھی اچھی بُری خبریں

مجھے کیا تیسری دنیا کا باشندہ ہوں

اپنا قہر سہہ لینے کی عادت پال رکھی ہے

ابھی امرود اور جامن کے پیڑوں سے ہوا اُترے گی

اپنے کاسنی ملبوس پیلی اوڑھنی میں

اور لے جائے گی چڑھتی سانس کے اُونچے بہت اُونچے

ہلارے میں مجھے پیچھے بہت پیچھے

جہاں پہلے سفر میں دفعتاً حملہ ہوا تھا

جان کے خیمہ پڑاؤ پر

کسی دلدار چہرے کی بڑی آنکھوں نے

دل کے شہریوں میں ایک بھگدڑ سی مچا دی تھی

بدن کے باغ میں

سورج مکھی سے شہد کا تاوان لیتے ڈنگ میں

کہرام برپاہو گیا تھا نارسائی کا

جہاں پہلی گلی والے

سویرے ہی سویرے چند لقموں کے عوض آراکشی کرنے

دیوداروں کو اپنی پشت پر لادے ہوئے جاتے تھے

شب کو لوٹ کر سستانے آتے تھے

ذرا آواز تو دوں دھوپ کو۔۔۔۔ شاید کہ رُک جائے

پڑا ہوں دیر سے

ٹیکے ہوئے کہنی ملائم اور اُجلائی ہوئی راحت کے تکیے پر

ذرا قامت کشیدہ دھوپ سے ہٹ کر

دراز ہو جاؤں اپنے آپ پر جھکتی ہوئی

آنکھوں کے سائے میں

پسینہ، اُونگھ کچی ٹوٹتی بنتی ہوئی شکلیں،

پرانی تہمدیں، کھیتوں پہ ٹھہری باس گنے اور

گوبر کی، تھرکتے نقرئی پاؤں کسی لاطینی لڑکی کے،

لبوں پر تھرتھری سی چھوڑ کر اُڑتی ہوئی مہکار

نغمے کی، قبا کے چاک سے چھلکی ہوئی جھلکی کے اندر

کوند اوجھل کی، پرانی آنچ میں بھیگی ہوئی آنکھیں

بچائے کوئی اِن آ نکھوں کو قدِ ریگ میں چلتے ہوئے

سائے کے سائے سے

یہی نسیاں، یہی یادیں۔۔۔۔

رواں آئینے ناموجود کی آئینہ داری کے

زمانوں کے بہاؤ میں

کہاں سے دیکھتا ہے کون اِس لمحے کے جگنو کو

ذرا سی رات کا منظر بنا کر بند مٹھی میں

ابھی بے انت کے رستے میں اُس آئی ہوئی

سہ پہر کے زینے سے اتُروں گا

پرانی دوستی کے آشنا چہروں کی بیٹھک میں

تو رنگا رنگ موضوعات کے پتوں کو پھینٹا جائے گا

چلتی رہے گی دیر تک تفریح چائے اور چالوں کی

مزا آتا ہے کم کم چُسکیوں میں ٹال کر

موضوع کی گرمی کو اپنے سامنے موجود رکھنے میں

یہ میٹھے گھونٹ کیسے ایک لمحے میں

پھڑکتی کنپٹی میں ایک دو کڑوی کسیلی گولیوں کی

راحتیں سی گھول دیتے ہیں

نہیں تو جسم کو خنکی کا اک احساس سا بے چین رکھتا ہے

چلوں آگے

کہ میرے اِس سفر کی نہج پہلے سے معین ہے

مجھے چلتی زمیں کے ساتھ چلنا ہے

اور اب دو رویہ نیندوں میں گھِرے دن کی

سڑک سے شام کی بستی میں آ اُترا ہوں

میرا سارباں آواز دیتا ہے

کہ بس کی لائٹیں ٹوٹی ہوئی ہیں

تم یہیں سپنے کی چادر تان کر سو لو

یہ وقفہ جاگنے کا ہے کہ سونے کا؟

میں خود سے پوچھتا ہوں

اور کمرے میں گھڑی کی نبض دھیمی پڑنے لگتی ہے

یہ دائم جاگنے والا مجھے سونے نہیں دے گا

کوئی تدبیر۔۔۔۔ اِس اندر کی تنہائی سے بچنے کی

جو آنکھوں میں سلائی پھیرتی ہے

اور سیسہ سا پلا دیتی ہے کانوں میں

مگر سوچوں تو یہ ہونا نہ ہونا بھی غنیمت ہے

مجھے کیا مفت میں زندہ ہوں ورنہ

میں بہت پہلے

کرائے پر کسی پردیس میں لڑتے ہوئے مارا گیا ہوتا

جنم کا حادثہ کہئے

کہ میں اُس نسل میں شامل نہیں تھا

جس نے سورج کے جزیرے میں

ہمکتے شہر سے اُٹھتے ہوئے خیمہ نما شعلے کا

رقصِ مرگ دیکھا تھا

مرے اِمکان میں تھا

کوئی یالو کے کنارے یا گھنے بانسوں کے جنگل میں

بدن میں چھید کر کے اوک بھر مجھ کو بہاد یتا

مجھے کیا، مفت میں زندہ ہوں ورنہ

یہ بھی ممکن تھا

کہ صحرا میں پلٹتے قافلے پر آگ کی بارش میں

مَیں بھی بھیگ جاتا

اور زندہ ہوں

کہ میں نے بے حمیّت ، مصلحت آمیز خاموشی میں

جینے کی سزا تسلیم کر لی ہے

مجھے کیا، ٹھاٹھ سے دستور کے مسکن میں رہتا ہوں

گزر اوقات ہو جاتی ہے رزقِ خواب پر

نانِ قناعت پر

بس اتنا ہے

کہ ساری عمر اس اپنی ہی بستی میں

زمانے اور زمیں کی علتوں کے آستانے پر

جبیں رکھ کر جیا ہوں

ور میرا نام بھی مذکور ہے گم نام صدیوں سے رواں

انبوہ کی لوحِ مقدّر پر

یہ کیسی ذلتیں ہیں جن سے بچنے کی

مری تہذیب داری نے مجھے مہلت نہیں دی

اور یہ تہذیب داری۔۔۔۔ زندگی کی اِس فضائے اجنبیت میں

بہر انداز جینے کے قرینے کا سبق دے کر

مجھے تم نے سکھائی تھی

مجھے اب حوصلہ دو

میں تمہاری ہی طرح

اپنے لہو کی روشنائی سے لکھی نظموں کی اِس ساری

کمائی کو جلا ڈالوں

مجھے مایوس کر دو نا!

آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں