کلی کی اوٹ سے ا۔س نے کیا اشارا مجھے
میں مُسکرایا
مساموں میں بجلیاں کوندیں
لہوکے دشت میں ٹاپیں سنائی دیں مجھ کو
گلابیاں سی ہوا میں دکھائی دیں مجھ کو
میں اپنی نظم بنا اور خود کو پڑھنے لگا
ہوا میں اُٹھتی ہوئی سیڑھیوں پہ چڑھنے لگا
گماں ہوا کہ قبا کھول دی ہے ساعت نے
بھنور نے سیپ کو پانی کی طشت پر اُلٹا
اندھیرا فاش ہوا روشنی کے بھید کھلے
عجیب وسعتیں پھیلیں خدائیوں کی سی
مٹھاس گھلنے لگی آشنائیوں کی سی
اُفق نے جھیل کو سمٹایا اپنی باہوں میں
تو زور زور سے کشتی کی سانس چلنے لگی
سفر کا نغمہ چھڑا بادباں کی دھڑکن پر
پیام آئے مجھے میری اپنی خوشبو کے
حیا سے سمٹی ہوئی اک صدا کی سرگوشی
مجھے بلانے لگی
پلٹ کے دیکھا تولہکتے ہاتھ کسی نیم وا درچے میں
ہلا رہے تھے بلاوے مِرے حوالوں کے
گلی کے موڑ پہ پہلا درخت پیپل کا
لپٹ گیا مجھ سے
میں بے پناہ کشش کی لپیٹ میں آیا
برس کے بوند گری، اشک ٹوٹ کے ٹپکا
قدیم اصل کے انبوہ کے سمندر میں