اے سہیلی بتا!
جسم کی یاترا کر کے آئی ہے تُو
موتیے کی ہنسی سے مہکتے ہوئے تیرے گُلنار چہرے پہ
شکنوں میں لکھے ہوئے
بید کے شبد پڑھ کے سناؤں تجھے؟
(اے سکھی! انت کا بھید کس پہ کھلا ہے کبھی)
کیا بتاؤں کہ اُن درشنوں سے
مِری آنکھ سیراب ہو کے بھی
پیاسی رہی
ہاتھ کا لمس ایسا تھا
ہر پور سے دیپ کی لو لپکتی تھی ہر سانس میں
تھرتھری سی کسی ان سُنے گیت کی
کیا بتاؤں سکھی! کس طرح دل دریچے کھلے
اور پنجرے سے
احساس کی نارسائی کا پنچھی اُڑا
میں نے دیکھا سکھی
جھیل کی لہر میں
اک نئے چاند کا عکس اُگتا ہوا
اور پھر ٹمٹماتے ستاروں کی پریاں مجھے
کل کے سپنوں کے آکاش پر لے گئیں
اسے سکھی! اور پھر یوں ہوا
جب سویرے کی پہلی کرن نے جگایا مجھے
گاؤں کا راکشس
جانیے کونسی سمت لے جا چکا تھا انہیں
میں تو چاہت کی ہاری وہیں
مر گئی
اے سہیلی بتا! دُکھ کی بپتا سناتے ہوئے
تُو بڑی سخت جاں ہے کہ
روئی نہیں
ہاں۔۔۔۔ مجھے کل کی سچائیوں پر بھروسہ جو ہے
دُکھ کے پردیس سے
دیکھنا! شیام پیارے ضرور آئیں گے