گیت کا خیمہ ہوا میں گر پڑا
آخری طائر صدا کی اُوس پتوں پر گرا کر اُڑ گیا
اپنے اندر موڑ مُڑتی آہٹیں
سو گئی ہیں گوش کی دہلیز پر
راستے آنکھوں پہ بازو رکھ کے ہیں لیٹے ہوئے
اُڑ رہے ہیں دائروں میں
گم شُدہ سمتوں کے پیلے گردباد
عزم کی تحریر پر کالی ہوس کی روشنائی گر گئی
ریزہ ریزہ نور کے چھینٹے اُڑا کر گم ہوا
آسماں کا عکس گدلی جھیل میں
اور میرے گرد سنّاٹے کا شہر
بے سماعت، بے زباں۔۔۔۔
میں کہ لامرکز کھڑا ہوں
ڈوبتی بینائیوں کے درمیاں
کس کو پہچانوں، کِسے آواز دوں
آفتاب اقبال شمیم