کہاں سے گزرا ہوں
سارے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں
یہ دیکھ:
میرے بدن کو نیلے لہو کی دیمک نے اس جگہ سے
یہاں سے چاٹا ہے
میری آنکھیں
اُبلتے عکسوں کی دلدلیں ہیں
یہ راستے سرو منظروں کے
زمیں کی کچی فصیل پر سو ہواؤں کے قہقہے اگے ہیں
مرے تعاقب میں لشکری بے یقینوں کے
میں خود کو خود سے چھپا رہا ہوں
یہاں سے نیچے گروں تو کیسے
زمیں کے سارے نشیب میری ہی پستیوں کی
علامتیں ہیں
قدیم راتوں کے پیشواؤ!
پرانی پوشیدگی کے صنعت گروں کی خاطر
گلی کی خندق میں چُھپ کے بیٹھا ہوں
آسمانوں کو نالیوں میں ڈبو چکا ہوں
قدیم راتوں کے پیشواؤ!
میں ایک سو سالہ اژدہا ہوں
کہ اپنی صورت بدل کے فردا کے آئینے میں
پرانے بہروپ کا تماشا قدیم آنکھوں سے
تک رہا ہوں
آفتاب اقبال شمیم