اُسے عکسوں سے بھیگی آنکھ میں وہ ڈھونڈتا ہے
جو لہو کی سرزمینوں میں
ابھی نایافتہ ہے۔۔۔۔ کون ہے وہ؟
کوئی لڑکی ہے کہ عریانی کا کوئی لمحہ ہے؟
عجب کیا
ہو اُسے شوقِ سماعت پانیوں کے شور کا
جس پر کسی گزرے زمانے میں
کسی نے باندھا تھا
وہ پُشتہ اُس کے آدم جسم سے اونچا۔۔۔۔ محیط اندر محیط
اُس سے بلند ہونے سے پہلے گر گیا ہو گا
وہ اپنی زرد پرچھائیں کی خندق میں
کسی کو ڈھونڈتا ہے
کونسی آواز ہے جس کا تعاقب کر رہا ہے
اور کیسی شام کے حلقے میں آ کر
ڈوبتا جاتا ہے
کتنی دُوریوں سے تک رہا ہے اپنے مشرق کو
مگر وسعت
نطر کی راہداری سے اُسے کیسے دکھائی دے
کسی لمحے کی آزادی
کبھی شاید اُسے اپنے تشدد سے رہائی دے
آفتاب اقبال شمیم