مجھے ملنے نہیں آیا
عظیم الشان سناٹے کی اس اقلیم میں
شاید مجھے تنہا، بہت تنہا حسن ابدال تک جانا پڑے گا
اک خلا کے ساتھ
اک بے انت دُوری کے سفر پر۔۔۔
کیوں نہیں آیا؟
ہمیشہ کا وہ سیلانی
ذرا اُس کو صدا دو
وہ یہیں
اُن خوشبوؤں کی اوٹ میں شاید چُھپا ہو
کیا خبر وہ یارِ بے پرواہ کسی چاہت کے کُنج خواب میں
دبکا ہوا ہو
ہاں صدا دو نا!
مجھے تم اس طرح کیوں تک رہے ہو
میں نہیں روؤں گا
میں بالکل نہیں روؤں گا
کیسے مان لوں وہ میرے آنے پر مجھے ملنے نہ آئے
وہ یہیں ہو گا، یہیں ہو گا
مجھے تم کل اِسی رستے پہ اُس کے ساتھ دیکھو گے
آفتاب اقبال شمیم