یہ کم کم رنگ، یہ برسے ہوئے بادل کے ٹکڑے سے
مری آنکھوں کے خالی آسماں پر
کتنے برسوں سے معلّق ہیں
یہ کیسی خوشبوئیں ہیں جو کہ جینے کی گلابی
چسکیوں میں مجھ کو رک رک کے پلاتی ہیں
یہ رشتے کیا ہیں
کیوں پتا شجر سے ٹوٹ جاتا ہے
یہ چاہت کی ہوس جہدِ بقا کے سیپ میں پلتی ہے
یا کہ سچ کا موتی ہے
مِری آنکھیں کھُلی ہیں
لیکن اتنی کیوں نہیں کھُلیں
کہ ظرفِ لفظ میں جھانکوں
خداوندا! تری کوتاہ دستی،
مجھے جینے نہیں دیتی مجھے مرنے نہیں دیتی
آفتاب اقبال شمیم