گِیتا! آؤ، اُترونا
سپنوں کے زینے پر چڑھتے چڑھتے تم تھک جاؤ گی
آنکھ ہتھیلی پر رکھ کر
ان تاریک زمینوں میں کس بھید کو پانے نکلی ہو
دیکھی ہے نا، میری شکل توقع کے آئینے میں
میں کیا ہوں!
اک سایہ، اپنے سائے کا
تم اپنی واز مِری بے ہیت ذات میں
ٹپکاؤ گی۔۔۔۔ کیا پاؤ گی
گیت ادھورا، بےترتیب کناروں کا
باہر سے اسرار بہت ہے کانچ جڑی دیواروں کا
انگلیاں زخمی کر بیٹھی ہو
اور دوا نایاب ہے ایسے زخموں کی
آؤ! بیٹھو پاس مرے
اور مجھے جی بھر کر تم رو لینے دو
کہتے ہیں کہ آخری آنسو
جو آنکھیں بے نور کرے۔۔۔۔ امرت ہوتا ہے
آفتاب اقبال شمیم