صدیوں گہرا سٹانا تھا جب اُس کو
گہنایا گیا
میں بھی خاموشی کی اس کالی سازش میں شامل تھا
میرے ہونٹوں پر بھی چُپ کے پہرے تھے
سناٹا ہی سناٹا تھا
پھر تاریخ کا اگلا ورق اُلٹایا گیا
شور اُٹھا اور
اس بے ساحل شور کے اندر سات سمندر ڈوب گئے
اور زمین جو بنجر تھی، آناً فاناً سرسبز ہوئی
پھر اُس کی آواز۔۔۔۔ صدائے آئندہ کا
ایک تناور پیڑ اُگا
جس کے سبز بدن سے جھلمل کرتی شاخیں
آوازیں ہی آوازیں
کرنوں کے جھرنے بن بن کر پھوٹ بہیں
آفتاب اقبال شمیم