آسماں سے کٹ کے آکر گر پڑی
صحن میں دن کی پتنگ
تیر جو آخیل کا مقدور تھا
اُس کی ایڑی پر لگا
اور شاید نیم عُمری تھی ہلاکت آفریں
ایک پایے کی ضروت تھی جھکی چھت کے سہارے کے لئے
اُس نے اپے واسطے دیتانت کا نسخہ لکھا
بہ گئی ڈھلوان سے ساری تمازت دھوپ کی
بے کراں تھا وہ، اُسے
سوئیوں کی گردشوں میں وقت نے سمٹا دیا
اور اب
جسم کے قلعے میں وہ محصور ہے
ڈھونڈتا رہتا ہے روز و شب ربڑ سی بزدلی کی نرم نرم آسائشیں
یاد ہیں اُس کو پہاڑے نفع و نقصان کے
کر چکا ہے آخری ترمیم وہ رومان کے منشور میں
رینگتا رہتا ہے ساحل کے قریب۔۔۔۔
کیکڑا
آفتاب اقبال شمیم