کتنی سفّاک تھی
موجِ آتش نفس
جو کہ برسوں کے پتھر کو
لمحوں کا تنکا بنا کر
بہا لے گئی
اور میں درد کے آبِ پایاب میں
ڈوبنے کے لئے
خواہشوں کے خُدا سے مناجات کرتا رہا
تُو خزاں زاد، بھیگا ہوا بارش برگ میں
بے نشاں راستوں یہ رواں
اپنی آواز کو میرے لہجے میں سُنتا رہا
شہر میں
دھوپ کی دھار سے
سارے سایوں کو کاٹا گیا
سُرخ آنچل ہری رُت نے اوڑھا نہ تھا
کہ اُسے
بیوگی کی سزا دی گئی
لوگ مایوسیوں کے عَلَم لے کے چلتے رہے
آس کی پیاس سے مرنے والوں کے اعزاز میں
تعزیے
ہر مکاں سے نکلتے رہے
یہ مناظر تِری آنکھ کے زخم
میری صدا کے خلا
شہر والوں کا مقسوم تھے
تو پھٹی پتلیوں میں کئی آسماں،
کتنے سورج چھپائے ہوئے
اپنے ہونے، نہ ہونے کے کہرام میں
ہر نئی نسل کے ساتھ مرتا رہا
اور جینے کی میعاد بڑھتی رہی
آفتاب اقبال شمیم