یہی رستہ تھا صبا کا پہلے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 217
سفر گل کا پتا تھا پہلے
یہی رستہ تھا صبا کا پہلے
کبھی گل سے،کبھی بوئے گل سے
کچھ پتا ملتا تھا اپنا پہلے
زندگی آپ نشاں تھی اپنا
تھا نہ رنگین یہ پردا پہلے
اس طرح روح کے سناٹے سے
کبھی گزرے تھے نہ تنہا پہلے
اب تو ہر موڑ پہ کھو جاتے ہیں
یاد تھا شہر کا نقشہ پہلے
لوگ آباد تو ہوتے تھے مگر
اس قدر شور کہاں تھا پہلے
دور سے ہم کو صدا دیتا تھا
تیری دیوار کا سایہ پہلے
اب کناروں سے لگے رہتے ہیں
رُخ بدلتے تھے یہ دریا پہلے
ہر نظر دل کا پتا دیتی تھی
کوئی چہرہ تھا نہ دھندلا پہلے
دیکھتے رہتے ہیں اب منہ سب کا
بات کرنے کا تھا چسکا پہلے
ہر بگولے سے الجھ جاتی تھی
رہ نوردی کی تمنا پہلے
یوں کبھی تھک کے نہ ہم بیٹھے تھے
گرچہ دشوار تھا رستہ پہلے
اب تو سینے کا ہے چھالا دنیا
دور سے شور سنا تھا پہلے
جوئے شیر آتی ہے دل سے باقیؔ
خود پہ ہی پڑتا ہے تیشہ پہلے
باقی صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s