باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 120
کیا ذروں کا جوش صبا نے چھین لیا
گلشن میں کیوں یاد بگولے آتے ہیں
دنیا نے ہر بات میں کیا کیا رنگ بھرے
ہم سادہ اوراق الٹتے جاتے ہیں
دل ناداں ہے شاید راہ پہ آ جائے
تم بھی سمجھاؤ ہم بھی سمجھاتے ہیں
تم بھی الٹی الٹی باتیں پوچھتے ہو
ہم بھی کیسی کیسی قسمیں کھاتے ہیں
بیٹھ کے روئیں کس کو فرصت ہے باقیؔ
بولے بسرے قصے تو یاد آتے ہیں
باقی صدیقی