باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 103
تم کب تھے قریب اتنے میں کب دور رہا ہوں
چھوڑو نہ کرو بات کہ میں تم سے خفا ہوں
رہنے دو کہ اب تم بھی مجھے پڑھ نہ سکو گے
برسات میں کاغذ کی طرح بھیگ گیا ہوں
سو بار گرہ دے کے کسی آس نے جوڑا
سو بار میں دھاگے کی طرح ٹوٹ چکا ہوں
جائے گا جہاں تو مری آواز سنے گا
میں چور کی مانند ترے دل میں چھپا ہوں
ایک نقطے پہ آ کر بھی ہم آہنگ نہیں ہیں
تو اپنا فسانہ ہے تو میں اپنی صدا ہوں
چھیڑو نہ ابھی شاخ شکستہ کا فسانہ
ٹھہرو میں ابھی رقص صبا دیکھ رہا ہوں
منزل کا پتا جس نے دیا تھا مجھے باقیؔ
اس شخص سے رستے میں کئی بار ملا ہوں
باقی صدیقی