پھر ایک بات چھڑی، ایک بات ختم ہوئی

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 154
وہ پو پھٹی، وہ سحر آئی، رات ختم ہوئی
پھر ایک بات چھڑی، ایک بات ختم ہوئی
رہ حیات کے ہر موڑ پر یہ غم توبہ
ابھی حیات، ابھی کائنات ختم ہوئی
مریض عشق نے لو شرح زندگی کر دی
چھڑی تھی آہ سے، ہچکی پہ بات ختم ہوئی
مرے جنوں ہی نے بحث حیات چھیڑی تھی
مرے جنوں ہی پہ بحث حیات ختم ہوئی
ہمیں نے عشق کیا اختیار جب باقیؔ
جہاں سے رسم و رہ التفات ختم ہوئی
باقی صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s