میں کارواں تھا، غباروں کا ساتھ دے نہ سکا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 50
ترے جہاں کے نظاروں کا ساتھ دے نہ سکا
میں کارواں تھا، غباروں کا ساتھ دے نہ سکا
کچھ اس قدر تھا نمایاں خزاں میں رنگ حیات
میں تشنہ کام بہاروں کا ساتھ دے نہ سکا
کہاں تمہاری تمنا، کہاں سحر کی نمود
مریض ہجر ستاروں کا ساتھ دے نہ سکا
نظر نہ تھی تو نظاروں کی آرزو تھی، مگر
نظر ملی تو نظاروں کا ساتھ دے نہ سکا
گلوں کا رنگ تبسم بھی تھا گراں باقیؔ
یہی نہیں کہ میں خاروں کا ساتھ دے نہ سکا
باقی صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s