صبر کا جام پی لیا ہم نے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 218
دل کا ہر زخم سی لیا ہم نے
صبر کا جام پی لیا ہم نے
کیسے انسان، کیسی آزادی
سر پہ الزام ہی لیا ہم نے
لو بدل دو حیات کا نقشہ
اپنی آنکھوں کو سی لیا ہم نے
حادثات جہاں نے راہ نہ دی
آپ کا نام بھی لیا ہم نے
اور کیا چاہتے ہیں وہ باقیؔ
خون دل تک تو پی لیا ہم نے
باقی صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Twitter picture

آپ اپنے Twitter اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s