باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 180
چل سکے دل کے نہ ہمراہ نظر کے ساتھی
رہگزر ہی میں رہے راہگزر کے ساتھی
ہر کنارے کی طرف صورت دریا دیکھو
راستہ روک بھی لیتے ہیں سفر کے ساتھی
قافلے شور مچاتے ہوئے گزرے لیکن
اپنی دیوار سے آئے نہ اتر کے ساتھی
خشک شاخوں پہ سر شام جو آ بیٹھتے ہیں
وہی دو چار پرندے ہیں شجر کے ساتھی
چاک دامن کا گلہ کرتے رہے ہم باقیؔ
اور محفل سے اٹھے جھولیاں بھر کے ساتھی
باقی صدیقی