باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 113
دل ٹھہرتا نہیں ہے سینے میں
جانے کیا مصلحت ہے جینے میں
یہ تمنا، یہ دل معاذاﷲ
آبگینہ ہے آبگینے میں
زخم پر زخم کھائے جاتے ہیں
کس کا دل ہے ہمارے سینے میں
زندگی نے ہزار حجت کی
خون کا ایک گھونٹ پینے میں
موج طوفاں کو دیکھ کر باقیؔ
ناخدا چھپ گیا سفینے میں
باقی صدیقی