بھول گئے رستہ گھر کا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 45
ایسا وار پڑا سر کا
بھول گئے رستہ گھر کا
زیست چلی ہے کس جانب
لے کر کاسہ مرمر کا
کیا کیا رنگ بدلتا ہے
وحشی اپنے اندر کا
سر پر ڈالی سرسوں کی
پاؤں میں کانٹا کیکر کا
کون صدف کی بات کرے
نام بڑا ہے گوہرکا
دن ہے سینے کا گھاؤ
رات ہے کانٹا بستر کا
اب تو وہی جی سکتا ہے
جس کا دل ہو پتھر کا
چھوڑو شعر اٹھو باقیؔ
وقت ہوا ہے دفتر کا
باقی صدیقی

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s