باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 86
خود کو لگتے ہیں اجنبی سے ہم
باز آئے اس آگہی سے ہم
ہر تمنا ہے دور کی آواز
مرمٹے دور دور ہی سے ہم
راہ کچھ اور ہو گئی تاریک
جب بھی گزرے ہیں روشنی سے ہم
واقف رنگ دہر ہو کر بھی
تجھ سے ملتے ہیں کس خوشی سے ہم
غم کا احساس مٹ گیا شاید
اب الجھتے نہیں کسی سے ہم
کہہ کے روداد زندگی باقیؔ
ہنس دئیے کتنی سادگی سے ہم
باقی صدیقی