باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 174
آپ ہی آپ سامنے تھے ہم
ایک پردہ اٹھا تھا پہلے بھی
منزل دل کی جستجو معلوم
دور اک قافلہ تھا پہلے بھی
کس نے دیکھا ہے غم کا آئنہ
دل تماشا بنا تھا پہلے بھی
یہی رنگ چمن کی باتیں تھیں
یہی شور صبا تھا پہلے بھی
پھول مہکے تھے رند بہکے تھے
جشن برپا ہوا تھا پہلے بھی
زیست کے ان فسانہ خوانوں سے
اک فسانہ سنا تھا پہلے بھی
کسی در پر جھکے نہ ہم باقیؔ
اپنا رستہ جدا تھا پہلے بھی
باقی صدیقی