باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 164
جب سایہ آدمی کا پڑا سرکا آدمی
اپنی ہوا میں اڑتا ہے بے پر کا آدمی
گرتا ہے اپنے آپ پہ دیوار کی طرح
اندر سے جب چٹختا ہے پتھر کا آدمی
مٹی کی بات کرتا ہے کس اہتمام سے
سونے کی سل پہ بیٹھ کے مرمر کا آدمی
سائے کا ایک طور نہ چلمن کا ایک رنگ
دیوار کا رہا نہ کسی در کا آدمی
ہر صبح اٹھ کے زیست کی دیوار چاٹنا
باہر سے کتنا دور ہے اندر کا آدمی
باقیؔ یہ پھیلتے ہوئے رنگوں کے دائرے
باہر ہی باہر اڑتا ہے باہر کا آدمی
باقی صدیقی