پہلی بارش ۔ ناصر کاظمی ۔ 1975 دیباچہ انتساب پہلے تیرا نام لکھا تھا میں اِک سپنا دیکھ رہا تھا تو کہیں باہر گیا ہوا تھا پیڑوں پر سونا بکھرا تھا دھوپ کا ہاتھ بڑھا آتا تھا شہر کے نیچے شہر بسا تھا تارا تارا جاگ رہا تھا دھوپ کا شیشہ دُھندلا سا تھا بس یونہی رستا بھول گیا تھا میں ترا رستہ دیکھ رہا تھا دیواروں سے ڈر لگتا تھا دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا یہ کیسا شعلہ بھڑکا تھا تاروں کا جنگل جلتا تھا دھرتی سے آکاش ملا تھا میں اک بستی میں اُترا تھا پھر تری یاد نے گھیر لیا تھا پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا میرا کون یہاں رہتا تھا یہ ملنا بھی کیا ملنا تھا بارش میں سورج نکلا تھا وہ جنگل کتنا گہرا تھا میں دریا دریا روتا تھا میں تجھ کو اپنا سمجھا تھا Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔