نشاطِ خواب ۔ ناصر کاظمی ۔ 1977 مطلعِ اوّل مطلعِ ثانی شہر غریب نیا سفر بارش کی دُعا گجر پھولوں کے ساتواں رنگ (تضمین براشعارِ غالب) اے ختمِ رُسلؐ اے شاہِ زمن اے پاک نبی رحمت والے پیامِ حق کا تمھیں منتہی سمجھتے ہیں شجر حجر تمھیں جھک کر سلام کرتے ہیں دل کی دُنیا میں ہے روشنی آپؐ سے تزئینِ کائنات برنگِ دِگر ہے آج لہو لہو ہے زبانِ قلم بیاں کے لیے گر مدحتِ شبیر کا دفتر کھل جائے تر آنکھ کروں معدِن گوہر کھل جائے کیا نقل کروں شامِ غریباں کی بہار موتی تری گفتار کے چنتا ہی رہوں ساقی مجھے پھر فکرِ جہاں نے گھیرا گلشن پاک ہمارا وطن سیالکوٹ توزندہ رہے گا سرگودھا میرا شہر صدائے کشمیر تو ہے مری زندگی تو ہے عزیزِ ملت تیرگی ختم ہوئی ہنستے پھولو ہنستے رہنا آج تری یادوں کا دن ہے ہر محاذِ جنگ پر قائدِاعظم اے ارضِ وطن اُس کا در چٹے پانی پر کھلتا تھا جاڑے کی رات پی، فو، جن وی تی —- بروکلین گھاٹ کو عبور کرتے ہوئے فوری تحفہ ہمارے پاک وطن کی شان ہر محاذِ جنگ پر ہم لڑیں گے بے خطر پاک فوج کے جواں تو ہے عزم کا نشاں پاک ارضِ وطن کے جیالے چینی دُھن پر عقیدتوں کا سلام تجھ پر فوجی بینڈ تو ہے دِلوں کی روشنی تو ہے سحر کا بانکپن میرے سر مرے دل کی صدائیں اے غازیانِ صاحبِ کردار دیکھنا چھائے ہیں فضاؤں پہ ہوا باز ہمارے یاد آئے پھر کتنے زمانے اِنٹر کانٹی نینٹل میں Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔