دیوانِ ناصر ۔ ناصر کاظمی ۔ 1973 وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں گو باغباں یہ کنجِ چمن مجھ سے چھِین لے پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے مگر جینے کی صورت تو رہی ہے دِیوانہ ہے دِیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر یاد نے کنکر پھینکا ہو گا کوئی بھی یادگارِ رفتہ نہیں کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے میں بھی تیرے جیسا ہوں مجھ سے اِتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دُور نکل کیسی سنسان فضا ہوتی ہے خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی یارو یہ کیسی ہوا ہے اب کے اس خرابے میں یہ دِیوار کہاں سے آئی دل کی آواز سنا دی ہم نے چاند کے سب رنگ پھیکے ہو گئے ترا دل گداز ہو کس طرح یہ ترے مزاج کی لے نہیں عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی اے دل قفسِ جاں میں ذرا اور پھڑک لے ابر گرجا گلِ باراں چمکے سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی کیا چیز زندہ بند ہے دل کے رباب میں تونے جو دیکھا سنا کیا میں نے دیکھا ہے نہ پوچھ کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں اب اُس پیڑ کے پتے جھڑتے جاتے ہیں بیِتے لمحوں کی جھانجھن بچا لیے تھے جو آنسو برائے شامِ فراق تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر کچھ کہو یارو یہ بستی ہے کہ ویرانہ کوئی جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے ہوا کہیں کی ہو سینہ فگار اپنا ہے اس چمن کی ہے آبرو ہم سے کچھ تو بتا کیا بات ہوئی ہے جو زخم دل کو ملے تھے وہ بھرتے جاتے ہیں نہ سنو تم تو کیا کہے کوئی نقشے کبھی اس اُجڑے ہوئے گھر کے تو دیکھو سونے پر ہے بھاری مٹی اِک دبستانِ ہنر کھولیں گے کہنے کو سب کچھ اپنا ہے بھیس جدائی نے بدلا ہے زِندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیے جانے کیا اضطراب میں دیکھا تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دُوں گا کہو اے مکینو کہاں ہو یہ کیسا مکاں ہے درد کی خامشی کا سخن پھول ہے کیسے گزرے گا یہ سفر خاموش سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تری یادیں خالی رستہ بول رہا ہے رات نیند آ گئی درختوں میں یہ وہی دیار ہے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر ناؤ چل رہی ہے رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے تیرا درد چھپا رکھا ہے دل کی افسردگی کچھ کم تو ہوئی ہم نفسو شکر کرو دیکھو اور آنکھ کھول کر دیکھو جی میں ہیں کیسے کیسے پھول غم کی میعاد بڑھا جاؤ کہ کچھ رات کٹے ساتھ مرے اک دُنیا جاگے وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے رات کا جادُو بکھر کر رہ گیا جو مل گیا ہے میں اُس سے زیادہ کیا کرتا ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دِکھا گیا چل ساتھی کہیں اور چلیں پچھلے پہر یوں چلے اندھیری جیسے گرجیں شیر آج دیکھا انہی ں اُداس بہت چھتوں پہ گھاس ہوا میں نمی پلٹ آئی عمرِ رفتہ کی رہگزر ہے یہ تیری گلی گلی کی خیر اے مرے دل رُبا وطن یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی دم بدم کوئی صدا ہے دل میں تو اجنبی ہے مگر شکل آشنا سی ہے اب تو آ جا کہ رات بھیگ چلی وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی آگ جلتی رہے رات ڈھلتی رہے اب سجے گی انجمن بسنت آ گئی ہمارا کیا ہے بھلا ہم کہاں کے کامل تھے دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے رات بھر پھرتا ہے اس شہر میں سایا کوئی کتنے گھروں کا حق چھینا ہے یہ ہمسفر مرے کتنے گریز پا نکلے ناکام ہوں کہ کام نہیں آپ سے مجھے ٹھنڈی رات جزیروں کی بڑی دیر میں تجھے دیکھ کر یہ لگا کہ تو کوئی اور ہے میری زِندگی ہے تو یہ سفر ہے میلوں کا لگی ہے آگ کہیں رات سے کنارے پر آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں کہ انتخابِ سخن ہے یہ اِنتخابوں میں عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ سخن کدہ مری طرزِ سخن کو ترسے گا وہ کشتیاں چلانے والے کیا ہوئے متفرق اشعار Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔