برگِ نے ۔ ناصر کاظمی 1952 اعتبارِ نغمہ ۔ دیباچہ برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی اِک بار جو آئے پھر نہ آئے پھر آئے گا دورِ صبحگاہی لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ جاگ مسافر اب تو جاگ اپنی دنیا دیکھ ذرا میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں قصہ تھا دراز کھو گئے ہم خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات تو مجھ سے میں تجھ سے دُور بہاروں میں اب کی نئے گل کھلے بس غمِ دوراں ہارے ہم یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں کیا پھول کھلے ہیں منہ اندھیرے بوئے گل ہے سراغ میں گل کے تم اپنی سی کر گزرے لب پہ مشکل سے تری بات آئی حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے نگاہِ شوق کس منزل سے گزری دلّی اب کے ایسی اُجڑی گھر گھر پھیلا سوگ تری آواز اب تک آ رہی ہے گزری جو ترے ساتھ وہ شب یاد رہے گی بہت دنوں سے ترا انتظار بھی تو نہیں کنج قفس میں سن لیتے ہیں بھولی بسری باتوں کو لوگ رخصت ہوے کب یاد نہیں ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی اک نئی آس کا پہلو نکلا ہوتا اگر اختیار کچھ دیر بھرپور رہی بہار کچھ دیر یاد آئی تری انگشتِ حنائی مجھ کو کہ تجھ سے مل کے بھی ترا خیال آ کے رہ گیا زخم دل کے ہوے ہرے کچھ تو منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو کبھی ہماری بات بھی سن شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی بہار ایک خلش سی دلوں میں چھوڑ گئی بلا رہی ہے ابھی تک وہ دلنشیں آواز وہ تری یاد تھی اب یاد آیا یہیں ملے گا مجھے میرا انجمن آرا آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی اُداسیوں کا مُداوا نہ کر سکے تو بھی وہ آئیں نہ آئیں مگر اُمید نہ ہارو خوفِ بے مہریٔ خزاں بھی ہے جیسے سپنا کوئی اُداس اُداس گزر گئی جرسِ گل اُداس کر کے مجھے کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن منظور ہمیں تباہ رہنا آنکھ رکھتا ہے تو پہچان مجھے پھر صبا لائی ہے پیمانۂ گل میں نے دیکھا ہی نہیں رات کا چاند ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں دل یونہی انتظار کرتا ہے وہ شعلے شفق تا شفق اب کہاں کم سخن محفلِ سخن میں آ پھر زور سے قہقہہ لگاؤ دیکھیے شامِ غم کہاں لے جائے دیکھ دنیائے جسم و جاں سے دور جس کو دیکھا اُسی کو چوم لیا دل کا شعلہ زباں نے چھین لیا رونے کے پھر آ گئے زمانے ہر اک سانس کو ہم صبا جانتے ہیں خامشی طرزِ ادا چاہتی ہے جسم ہے یا چاندنی کا شہر ہے گلِ عارض کی جھلک یاد آئی حسن خود محوِ تماشا ہو گا دل کا یہ حال کہاں تھا پہلے بجھتی آنکھوں میں ضیا پھر آئی فکرِ واماندگاں کرے کوئی آج تو شام بھی سحر سی ہے ہمیں ہر حال میں غزل کہنا کیا کہیں زیست میں کیا کیا نہ رہا گل کیا غبارِ بوئے سمن کو ترس گئے آنکھ کھلتے ہی چاند سا دیکھا بال چاندی ہو گئے سونا ہوے رخسار بھی اب دُور دُور ہی سے کوئی بات ہو تو ہو دھیان کی شمع جلا کر دیکھو ہزار بار ملو پھر بھی آشنا نہ لگے کہاں پڑے ہو اسیرو! بہار کے دن ہیں اُس کے آنے کی کچھ کہو یارو کہیں کہیں کوئی تارا ہے اور کچھ بھی نہیں وہ رات ہے کہ ستارے نظر نہیں آتے میں اندھیرے میں ہوں، آواز نہ دے اشعار Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔