ہوا کا تخت ماجد صدیقی چہروں پر بھی نرخ نظر آتے ہیں جہاں بازاروں کے کرلی ہے مفاہمت خزاں سے بہ شہرِ درد وُہی لوگ شہر یار ہُوئے کہ برگ برگ چمن کا ہے چہچہانے لگا حرصِ سکوں کے سحر میں آ کر اور بھی ہم لاچار ہوئے عَلَم جو لے کے چلے تھے اٹھائیے اَب بھی نکلا چاند بھی گہنایا ہے سازش سے اندھیاروں کی لب کشا عنچے ہیں اَب کچھ اور ہی آہنگ میں بہ ذکرِ عجز زباں کو فگار کیا کرتے کرتے بھی کیا اور ہم سہہ گئے سینہ تان کے ٹھہرا جب احتجاج تو کھُل کر منائیے ممکن ہو جس طور بھی نکلوں اِس آزار سے ہوتا بھی کیا حوصلہ جھڑنے سے انکار کا میں ایسے اظہار سے جانے کیا لیتا ہوں کیسے کیسے وقت آئے اور گزر جاتے رہے حرفِ حق جب بھی کہو جان کا آزار بنے مرے وسوسوں مرے واہموں کو مٹائیے سماں یہی ہے رگوں میں لہو مچلنے کا موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی ہُوئے اجنبی وہی بام و در ترے شہر میں تِیر برسے ہمیں پر بھرے شہر میں ہوا نے اپنا ارادہ بتا دیا ہے مجھے حصّۂ جان بھی اپنا میں ترے نام کروں یہ بھی اِک رسمِ جنوں کیونکر نہ اب دُہرائیے رُک گیا ہے وہی رستہ میرا دِل کہ بیگانۂ راحت ہے کسے یار کرے سیکھ بیٹھے ہم اڑانوں کے نئے انداز بھی دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے رہا ہی ایک سا کب ہے مزاج موسم کا اک ہمیں ہیں کہ نہیں نرغۂِ شر سے نکلے بھُلا دیا ہے اُسی شہر میں کسی نے مجھے لطف مشکل ہی سے پاؤ گے یہ دو چار کے پاس اثر اُسی کا ہمارا بھی ناطقے پر ہے میری تشنہ خواہشیں بچّہ مرا دُہرا آ گیا ایسا بھی راس زورِ طبیعت نہیں مجھے حاصل ہمیں بھی فخر تری دوستی کا تھا گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں کشیدہ رُو ہے ہمِیں سے بہار کیا کہئے مَیں بھی گھِرا ہوں جیسے فضائے حباب میں یہ ہم سے پوچھئے کیا ہیں محبتیں کرنی خود سے بہتر شہر کے لوگوں کو دیکھا کیجئے کم ہوں نہ شورشیں ہی لہو کی تو کیا کریں کس درجہ ہم تھے غرق بدن کے سرور میں وہ شوخ میری تمّنا کا پیرہن نہ ہوا ہر ایک رت کو رہا دعوئے ہنر کیا کیا کیا ہوئے لوگ وہ خوابیدہ اداؤں والے کھولی کتاب اور سرِ مَتن جا رُکا اِک یہی نسخہ چمن میں جانتا کوئی نہیں دن پھوٹنے کے ہیں یہی شاخِ گلاب کے میں کہاں ہوں مجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی زہر اندر کا بھلا کب تک نہ اُگلا جائے گا پھر وُہی اندھا کُنواں ہے اور ہم یہ ارتباط بھی آب و حباب جیسا ہے ڈھل کے حرفوں میں، تری شاخِ نظر ایسا ہو چُپ چاپ تھے جانے کیوں شجر بھی سجدۂ بے بسی ادا کیجے داغِ برہنگی یہ اُسی نے دیا نہ ہو کورے ورق پہ کچھ تو لکھا جانا چاہئے اور کبھی بندِ قبا دیکھنا میں سخت اُداس ہو چلا ہوں گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے برس برس ہے مرے تن پہ چیتھڑوں جیسا تماشا ہے اک عمر بھر دیکھئے طلب ہمیں بھی اُسی شوخ گلبدن کی ہے سامنے اپنے ٹھہرتا دلربا نقشہ کوئی آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے فرطِ محرومی سے اپنے آپ کو رسوا کروں کوئی ہنر، کوئی داؤ کہ سادہ دِل ہوں میں کہ تھی زمینِ تمنّا ہی اپنی بارانی دیا ہے بادِصبا نے مزہ خمار آسا دل و جاں پہ کوئی تو وار ہو ترے شہر کے در و بام سے جس کے کندھوں پر ابھی تک بوجھ ہے اجداد کا پڑے ہیں منہ پہ تھپیڑے اُسی ہوا کے مجھے سارا پیکر اُجاڑ بن ہے مرا روز اک تازہ تلاطم ہے مرے اعصاب میں اب کے پت جھڑ ایسی آئی ہم بھی ہوئے ملول میاں جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت بڑے قریب سے وہ شخص یاد آنے لگا بنی ہے جان پہ جو کچھ بھی برملا کہئیے عہدِ طفلی سا بغل کے بیچ پھر بستہ ہوا بیٹھا ہوں میں بھی تاک لگائے مچان پر ملے جو ہم تو لبوں پر سوال کیا کیا تھے وُہ آئنہ ہوں کہ جُڑ جُڑ کے نِت بکھرتا ہُوں چَپک کے رہ گئے ہونٹوں سے سب سوال اپنے نظر میں اہلِ ہوس کی گناہ کرتے رہے بھلا لگتا ہے کیوں ہر حادثے سے بے خبر ہونا کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں بجائے زمزمہ بیرونِ لب زباں نکلے گھرے ہیں لوگ طلسماتِ آرزو میں ابھی گرفت کون سے لمحے پہ اپنی جتلائیں پہچان موسموں کے دئیے پیرہن سے ہے جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں بنی ہے تتلی مری خواہشوں کے پھولوں کی لپک کے موج کناروں کو جیسے چھُو آئے دام کے زیرِ قدم ہونے کا اندازہ نہ تھا کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے سحر نما ہے مجھے جو بھی کچھ کہا ہے مرا اچھا ہے نہ پوچھو ابھی احوال سفر کا نظر میں جو بھی ہو منظر نشے میں چُور ملے وسعتِ فکر کچھ ایسی ہے کہ تنہا ٹھہرے مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔