ماجد نشان ماجد صدیقی آندھی کب آداب اپنائے اور مقیّد ہو کے نہروں کی روانی ہو گیا چنگاری کو رقصاں دیکھا جذبۂ رشک و رقابت ہے جگر میں اُترا وُہ کہ اوروں کو میّسرہے،مجھے کیونکر نہیں بَیری بھی اُنہی کی وُہ ہوا ہے میں کِشتِ تاریخ میں پھر سے پُھوٹ چلا ہوں ربّ عالم پناہ میں رکھنا بادل کہ نشے میں جُھومتا ہے بدلیں چمن کے بس ایسے سارے ہی اصول تو کیا اچّھا ہو شجر پہ پات تھے جتنے وہ زرد ہونے لگے اور پیرایہ نہ تھا اظہار کا دیس سے ہٹ کر کون ٹھکانہ گھر سا ہو موجۂ آبِ رواں یاد آئے وقت ہی سب کا محرم وقت ہی دشمن بھی میرا وُہی اُس سے واسطہ ہے برسے غضب ، جو قسطوں میں مرنے سے بچا لے اے لرزتے زرد پتّے مت خزاں کی بات کر یار تک، بے وفا نِرا نکلا تُند ہوا آ آ کر کیوں دہلائے مجھے ہاں مِلے گر تو یوں وقار مِلے سُکھ کی شِیرِینی کو چیونٹیاں چاٹتی ہیں چِنتاؤں کی یہ ایک شمعِ سخن ہم نے جو جلائی ہے ذلیل کرتا ہے، بے حد خراب کرتا ہے اُس پہ کوئی نظم پِھر لکھ لایئے ہے اگر مہلت تو کُچھ آرام کر جابر کی یہی تو اِک ادا ہے جہان دیکھتا اپنا سلوک کیا ہوتا زمین کیا ہے، فضا کیا ہے، آسماں کیا ہے ایم سی ایس اک اور بھی آپ نے کرنا ہو گا صحرا میں یہ موجۂ صبا ہے ارماں پسِ چشم جو رُکا ہے کیا اور نجانے دیکھنا ہے رُت اپنے نگر کی اور کیا ہے دریا میں وفور آب کا ہے ہاں وجود اپنا جتا اور رقص کر جو سیر کر دے رُوح کو ایسا کوئی منظر نہیں ہاں سانس یہی خُدا نُما ہے انگناں اُترا پُورا چندا آتی شب گھٹ جائے گا جُگ بیتے وہ شخص نہیں ہے دیکھا جیسے وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا زورآور نے مدِ مقابل کو محصور ہی رکھنا ہے خدا کے گھر میں بھی جوتوں کی خود حفاظت کر الجھن میں ہمِیں کیوں پڑ جائیں واماندگی ہے ورثۂ اجداد کیا کہیں وقت سمٹا تو ہمیں کام بہت یاد آئے ستم شعار دُعاؤں سے کب ٹھکانے لگے شاخ پر کِھل کے گلابوں نے بکھر جانا ہے مگر فن ہے مرا موجود تو کب میں نہیں ہوں گا ماجِد جو لطف دیں وُہ ہوائیں تلاش کر آخر کو رُسوائی اُس کا رخت ہُوا خوں میں وہ جوشِ اشتیاق کہاں کچھ نہ کر اور بس فساد اُٹھا اور معالج بہم عطائی مجھے فیض یہ اب پڑھائیوں کے ہیں خُود اُجڑنا اور ہر منظر اُجڑتے دیکھنا اور ترا ہجر، ترا دھیان زیادہ چاہے میں سر سبز شجر جو پل پل اِیندھن بنتا جاؤں زخم دے گئے دل کو خار پھر زبانوں کے رات گئے تک نیند نہ مجھ کو آئے گی یعنی مرگ و فنا کا نامہ بر ٹھہروں دیکھ کے کیا پلٹا ہے کچھ تو بتا او یار! مہ کا اثر بھی مہر کی ضَو پر پڑ سکتا ہے حرف در حرف نئے پُھول کِھلائے ہم نے بے دم ہے پیڑ پیڑ چمن کا چِتاؤں میں بیوگاں سی گُنگ تنہائی لگے وہ جو پُر لطف تھے روزوشب موڑ دے ٹھکانہ تھا جہاں اب وُہ شجر ،اچّھا نہیں لگتا اُس کی نیّت ہو چلی تھی بھیگے موسم کی طرح میں تِیرہ بخت ہوں ،دے، آفتاب دے مُجھ کو کوئی ہے ڈھب کا ٹھکانہ کہاں ہم ایسوں کا نظر کیونکر نہ رکھیں اُس پہ جو رت بھی سہانی ہے ہم جنہوں نے آنکھ کھولی جابروں کے درمیاں Rate this:اسے شیئر کریں:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)اسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔