غزل سرا ماجد صدیقی خُدا بھی دُور ہی سے دیکھتا ہے جانے کس بیوہ نے دیپک گایا ہے وُہ شخص کہ ہے گلاب جیسا پات پہ جیسے چیونٹی دریا پار کرے ہمیں بھی خبط سا لاحق ہے امیدِ سحر کب ہے آنکھوں میں اُتری لگتی ہے صورت اِک متوالی سی اور جنّت میں مجھ پر یہ بہتان لگا میدان کی اِک ہار ہے پہچان ہماری یہی جُنوں ہے مِرا وُہ مجھے رہائی نہ دے مجھ بچّے سے خاص دُعا کرواتا تھا جانچ لیا جس نے گردن کی دھاری سے مکر کی اُس میں صنّاعی دکھلائی دے اَب تو چاروں اور ہمیں وہ رات دکھائی دیتی ہے خیر سگالی کے اب وُہ جذبات کہاں یاد ستائے خوشبو کے مرغولوں کی شجر کونپلوں کے نکلتے ہی نذرِ خزاں ہو گیا ہے بیچ میں جس کے مایہ کی ہے سانپوں جیسی کاٹ وُہ مانے گا نہ اَب کوئی صفائی کیا جبر جتانے یہ سیہ رات رُکی ہے ایسا بھی کبھی حشر گلستاں میں کہاں تھا مجھے نکال کبھی کرگسوں سے، چیلوں سے دکھائے گا وہ اندازِ شہاں آہستہ آہستہ سُن تو لیتا وُہ مری گو بات بچگانہ سہی کسی طرح ہی سے دیجے، مجھے سزا دیجے پہلے سے بھی بڑھ کر کہیں بیزار کرے ہے محرم بھی ہو تو پھر نہ اُسے آشنا کہو رنج سا اِک نظر میں اُبھرنے لگا جو گئے ہیں وُہ نہیں لوٹ کے آنے والے ہم میں ہے جو اِس قدر بھی سادگی اچّھی نہیں کہ جو گفتنی ہے، زبان پر نہ کوئی بھی شہر میں لا سکے فغاں کی طرز وُہی ہم بھی اختیار کریں آئنوں میں جابجا اِک بال سا آنے لگا زور آور ہے وہ فرمان اُسی کے ہیں کون کہے یہ رنج نظر کا کب جا کر کم ہونا ہے بچّوں سا ہمیں آئے اظہارِ ہُنر کرنا پل پل ترسے آنکھ جِسے وُہ چاند کنارِ بام نہیں مُجھ کو ٹھہرائے وُہ، آشنا کس لئے ہر قدم پر ہیں کیا کیا نئی تتلیاں اُس کو پاگل ہی کہو رات کو جو رات کہے اَب نام ہمارے کوئی سوغات نہ آئے کس نے اتنی رات گئے بیدار کیا یہ ڈر ہے ڈوب نہ جائے صدائے انسانی سُبکیاں ہی ہاتھ آئیں حالِ دل سُنانے میں جس سے مرے پیکر پہ بھی سائل کا گماں ہے پپڑی سا ہر اک لب پہ جما شورِ فغاں ہے جو برگ ہے پہلو میں لئے خوفِ خزاں ہے اوج کو اپنے چھُو کر مہ آرزو، ماہِ کامل کی مانند گھٹنے لگا مختصر یہی جانو، جانگسل ہے جو منظر وہ مرے ہُنر میں ہے مسند سے وُہ شخص نہیں ہے جانے کا اُسی کا تِیر آخر کو لگا ہے جا نشانے پر کند ہو چکے جو بھی وُہ مراد بر آئے درپیش ہیں اِس دل کو زیاں اور طرح کے خلق جِسے کمزور کا استحصال کہے وقت نجانے اور ابھی کیا کیا منظر دکھلائے گا شور سُورج سے بچھڑ کر دن بھی کچھ ایسا کرے پڑے گا تا عُمر اَب یہی کاروبار کرنا دل میں تھے جذبوں کے جو انبار جلے یہ دل اُس کا یہی پہلو نہ جانے خاک میں اشک بھلے مِل جائے کاغذی پھُول ہی پودوں پہ سجائے جائیں دیکھنے سے جن کے مائیں مر گئیں اِس شہر میں کم نہیں کسبِ خسارہ میں مگر انسان بھی سدا رہیں گے نہ ایک جیسے رُتوں کے انداز دیکھ لینا دلوائے بارود ہمیں بیگانوں سے جینے کا ہر لمحہ شب آثار لگا ہے کس کے ہاتھوں آ لگا مجھ کو یہ پتّھر دیکھنا جھُوٹ کی کھاد سے ہر فصل اُگائی جائے ڈنک چبھو کر جیسے اژدر بھُول گیا جھونکے سے جانے کیا اپنا ناتا ہے میرا تو سب شہر سے اِک جیسا ناتا ہے جو برگ بھی تھا سلگتی زبان جیسا تھا وُہ ماجرا سرِ دیوار ہے رقم دیکھا سال بہ سال نہ کیونکر میں بھی سالگرہ منواؤں نہیں رقیب تو رہ میں مری سماج سہی موسم پیار کی وادی کا کہ طوق ڈالا ہے میری گردن میں بندگی کا اچّھا ہے یہی آج کا اخبار نہ دیکھا کیا کیا نہ ہمیں خیال آئے تنِ عریاں پہ قبا لاگے ہے دیکھ اعلان یہی آج کے اخبار میں ہے بگھیا میں کچھ پھُول کھلائے ہم نے بھی کھِل اُٹھا ہے حاصلِ شر دیکھ کر ہر ایک آنکھ جہاں آنسوؤں کا جھرنا ہے ہوئی ہے مدّت ہی ہاتھ میں وہ کتاب آئے آنچ کِن کِن منظروں کی آنکھ تک آنے لگی حال مخالف تھے سب کے سب دریا میں تمام بستی میں ایک سا اضطراب دیکھا جب بھی دیکھا ہے پیڑوں کے تن پر دریدہ قبا اور تھی دشت پر سے بادل کو لے اُڑے ہوا جیسے وُہ مہرباں تھا تو دل کو گمان کیا کیا تھے قدم قدم ہے مرا پل صراط پر جیسے ساتھ دنوں کے ہر شکلِ احوال گئی پتہ بتائے کوئی، کب کسی دفینے کا Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔