شہر پناہ ماجد صدیقی سخن کی شاخ پہ رقصاں اِدھر گلاب وہی ہمارا رخت اِدھر ایک چیونٹیوں سی کمند لِیے کے لَوٹانے پر شور مچانا کیا ہم کیوں اپنے ہونے پر شرمانے لگے ہیں یہی انداز ہے مّدت سے جو اپنے سفر کا ہے رکھ دی گئی بگاڑ کے ملت کی نفسیات کیوں چَین تجھے اے دلِ بے تاب! نہ آئے خدا اُس کو خدائی دے رہا ہے میں کہکشاں ہوں، مجھے نور کی کماں دے دے کام بہت سارے ہیں، فرصت کم لگتی ہے شہرِ خوباں سے کوئی اچّھی خبر آتی نہیں شاخِ شجر سے ٹوٹ گریں گے ،ہار نہ لیکن مانیں گے پُوری عمر کی دُوری پر آتا کل لگتا ہے آشتی باہر نمایاں اور بگاڑ اندر یہاں کیا کیا سلوک ہم سے نہیں آسمان کا آج کل کے درمیاں کا فاصلہ عمر بھر کا فاصلہ لگنے لگا آنکھ مری کیوں وا ہے اِتنی دیر گئے اِن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھے ہم پر ہے التفات یہی آسمان کا سارے یقیں پانی پہ لکیروں جیسے ہیں دشت میں رہ کر چیتے کو خونخوار کہیں، کیا کہتے ہو یہ بڑا چودھری، وہ بڑا چودھری، اُس سے آگے بھی ہے اِک بڑا چودھری ہُوا ہے آتشیں صحنِ نظر، آہستہ آہستہ گرد کے طوفاں وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا بادل نے جہاں بھی کہیں بے نم ہمیں دیکھا اور اُن کے کھیلنے کو گاٹیاں ہم آپ ہیں تجھ سے کچھ اور نہ اے میرے مسیحا! مانگوں یہ ستم مجھ پہ بار بار نہ کر مرے ضمیر! کرم کر مجھے بھی جینے دے ختم ہوں گے نہ جب آئیں گے، زمانے میرے اب ذکر بھی جس شخص کا چھالا ہے زباں کا شب کی ہم زاد اتری ہوئی سربہ سرآنگنوں میں ملی سِفلوں سے پالا پڑتا ہے راز یہ تب کُھل پاتا ہے امتدادِ وقت سے دُھندلی، عبارت ہو گئی ٹوٹے نہ یہ غضب بھی ہماری ہی جان پر اپنے تساہل پر کیوں شرم نہ آئے مجھے کھنچے ہوؤں سے مراسم نئے تلاش کروں گلاب رکھ کے کتابوں میں یار، بُھول گئے ہاں وہ شخص کہ رات کی رانی جیسا ہے جس کا سخن ہو اُس کو وہ، لاثانی لگتا ہے جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم دم نہیں توڑا ابھی ذی روح نے اور باہم کر گسوں میں جنگ ہے یہ سانحہ، کوئی بڑی سرکار نہ جانے وہی تنکے ہیں جن سے آشیاں ترتیب پائے گا سرسوں کی رُت ہے اور ہے کشتِ نظر اداس Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔