سُرخ لبوں کی آگ ماجد صدیقی اِنتساب اُتری ہے چاند تک میں ترے پیرہن کی باس آپ نے اپنا وعدہ نبھایا نہیں ہم نہیں بولتے ہم نہ بتلا تے، نہیں، ایسا نہیں غیر سارے تمہیں یاد آنے لگے تم نے اچّھا کیا پتا پتا موسمِ گل بھی بکھر جانے لگا پھول کیوں شاخ سے ٹوٹ جانے لگا سوچنا چاہیے جاناں! قریب آؤگھٹا بھی ہے مے بھی ہے بہ بزمِ غیر نہ آتے اگر بُرا کیا تھا حسن کے شہ نشیں، لطف کے آسماں دیکھ ایسا نہ کر دل کا ہر خواب سورج مکھی بن گیا پُھول کھلنے لگے جاناں! تیر ا برتاؤ بھی جان لیا غیر کے روبرو مجھ سے رُوٹھا نہ کر اُن میں بھی جو سخت تھے وہ دوستوں کے وار تھے میر ے ہونٹوں پہ رقصاں شرر دیکھنا آپ سے ہو گیا بھی اگر سامنا ہم نہ کچھ کہہ سکے چاند چہرے کا ہوتا اگر ضَونشاں کچھ بگڑنا نہ تھا پُھول کھلیں جب بھی بگھیا میں یاد بہت آتے ہو جاناں نجانے یہ دل جشن کیا کیا مناتا تم آئے تو ہوتے لیکن جو ہو چکی وہ خطا مان جائیے تم بھی جاناں! ذرا مسکرا دیجیے تیر سارے کماں کے چلا دیکھیے لب پہ لانے لگی پھر سخن پیار کا، رقص کرتی ہوا یہ ستم مجھ پہ بار بار نہ کر ہاتھوں سے دُور ہونے لگیں اُس جسم کی گولائیاں اور پھر وہ، کہ سنی تم نے زبانی میری مگر اک کٹھن سا سوال ہے تجھے دیکھنا رشک میں اُس شوخ کے اب کی ادائیں شوخ ہیں ہنس ہنس کر تم ہی نے پُھول کھلانے ہیں بِن ترے کیا کیا حسیں موسم گزر جانے لگے ٹل جائیں تجھ نگار سے ایسے بھی ہم نہیں تم بھی اے کاش! مرے بھاگ جگانے آتے اِک نظر اے کاش مڑ کر دیکھتے وہ لڑکی جو شرمیلے نینوں والی ہے ہم سے لے جائیں تمہیں دُور زمانے والے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔