دِل دِل کرب کمان ماجد صدیقی دے دی ہے اُسی حبس نے پیڑوں کو زباں اور پل بھر میں دھُنک جاتے ہیں ابدان کئی تتلیوں پھولوں کی بزم آرائیاں گرتوں کے ساتھ گرنے کا کھٹکا ہمیں ہو کیوں پھر بنامِ فلک عرضِ احوال کے پھول کھِلنے لگے نفرتوں کی مشق ہی کو کیوں ہمیں پیدا کِیا میں وقت کو دان دے رہا ہوں باغ میں کھوؤں سے کھوئے جا بجا چھِلنے لگے جو بے اصول ہو، کب چاہئیں اصول اُس کو سامنا اِک عمر سے ہے اُس اندھیری رات سے چڑیا کے بچّوں کو سانپ، نِگل جائے گا اب کے لگے ہے ٹھہری وہ ٹھنڈے جل سی چاہتا تھا وہ ایسا سماں دیکھنا ہاتھ دستِ یزید میں جو نہ دے حق سرائی میں اپنا سر دے دے جینا ابھی دے گا مجھے رسوائیاں کیا کیا وا جس کے لیے رہ گیا دامان ، شرر کا خوف جاتا نہیں مچانوں کا بھیڑیوں کی دھاڑ سے ہے دشت بھر دِبکا لگا کام مرے، کانٹوں میں اُلجھے بالوں جیسے آگ لگتے ہوں جس کے پھول مجھے میں وہ بد بخت فرزندِ اجداد ہُوں جس کو ورثے میں ہوں التجائیں ملیں دریا میں جتنا زور تھا پل میں اُتر گیا وُہ کہ ڈسا جانے والا ہے، سنبھل جاتا ہے دے شرف تخت، دے رزالت بھی عمر ڈھل جانے لگی اور قرض بڑھ جانے لگے خیمہ مگر اُڑا کسی چڑیا کی جان کا اُسی سے تابِ سفر عزم کی سپاہ میں ہے خبروں پر مامور ہوئیں جتنی بھی زبانیں کالی ہیں جو اَوج نشیں ہے مرا آزار نہ جانے بندگی میں کیا سے کیا یہ سر نگوں کرنا پڑا ہمارے شہر کا موسم عجب ہے مردُود، بہت مقبول ہُوا وقت، لگتا ہے کہ ’میرا، نہیں رہنے والا ساتھ نہ دے کیونکر اُس کا پٹواری بھی کب کھڑی کھیتیاں پھر اُجڑنے لگیں یہ کیا ہُوا کہ بجز اشک نم ہَوا میں نہیں آج بھی جبر کے ہیں زمانے وہی کس کا نوحہ کون کب لکِھے یہاں بدن ، پیہم اُدھڑتا جا رہا ہے وہ پیڑ پیڑ پہ آکاس بیل چھوڑ گیا کہ سانس سانس کے تیور الاؤ جیسے ہیں جُگ بیتے ہیں بستی کو بیدار ہوئے یزیدِ وقت نے جوروستم کی انتہا کر دی کیا جانوں کیا کیا ہیں عقیدے خام مرے آنکھوں کی سیپیوں میں گہر ڈھونڈنے پڑے سنی بھی میری کہانی تو درمیاں سے سنی خاموشیِ وجدان، خبر لائے گی کچھ اور پھول چاہت کے کچھ ایسے بھی کھلائے جائیں خدا بھی میرے اندر آ بسا ہے شام کوئی اُس کی آنکھوں میں کاجل جیسی شام نبض جس دم ٹوٹ جائے گی، گھڑی رُک جائے گی دل بالک، من جائے گا بہلانے سے ملے جواب نہ اِس طرح کے سوالوں کا جو کہنا ہے، پہلے کیوں نہ پرکھا جائے سانپ کو ہاتھ میں پکڑا پر ڈھیلے انداز سے پکڑا ہے ہم کیوں اپنے ہونے پر شرمانے لگے ہیں مادۂ آتش سے پُر اپنے سمندر دیکھنا چیتے مل کر خون سے پیاس بُجھانے نکلے کہتے ہیں ہم محتاجوں کا مسیحا ہے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔