تمازتیں ماجد صدیقی یہ مشعلیں بھی جلا کے دیکھو میانِ قامت و رُخ جُوں سجے ہیں گال ترے آ ۔۔۔ اور مری تشنگیٔ جاں میں اُتر جا ورنہ ازبر ہیں ہوا کو بھی فسانے میرے موسم سے یہ خراج کسی دم تو پائیں ہم کبھی ملو کہ خیابانِ تن میں پھُول کِھلیں پھول ہو تم کلی نہ بن جاؤ رُتوں کے رنگ سبھی ساتھ لیتے جاؤ گے پر نمایاں تری آمد کے نہ آثار ہوئے یہ رنگ بھی آ، تجھے دکھاؤں آئنہ جیسے ریگ زاروں میں رُوح میں تُجھ کو سمایا دیکھوں نظر میں کیا یہ الاؤ جلا دئیے تُو نے مَیں بدن کا ترے کھُلتا ہوا منظر دیکھوں نہ سہی پہ کُچھ تو ترا جواب ہے سامنے ہو ترا کرم اَب کے رات بھر ہم نکھرتے سنورتے رہے دِل میں جو بات ہے ہونٹوں پہ بھی لایا کیجے حشر اِس دل میں اُٹھائے کیا کیا چاہتی ہے نظر ہر سماں دیکھنا وُہ مہرباں تھا تو کیں ہم نے وحشتیں کیا کیا پلکوں پہ وُہ جھلمل سے سارے، مری توبہ دل میں کچھ ہو تو اب سُجھاؤں تُجھے چھب جو بھی ہے اُس کی آتشیں ہے تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے آغوش سے چاند بن کے ڈھلنا کمیاب ہے لعلِ ناب سا وُہ جو حرفِ لطف ہے وہی کنجِ دہن میں ہے یوں بھی ہم تُم کبھی مِلا کرتے دیکھو تو بدن ہم دونوں کے کیسے باہم دوچار ہوئے پگھلے بدن کے ساتھ مجھے تُو کہے گا کیا لفظ مُنہ پر کوئی تو آنے دو پھُول کھِل کھِل کے مجھے یاد دلائیں تیری رگوں میں مچلتی تمازت کبھی تو زباں پر بھی لاؤ لُہو میں اِک تلاطم نِت اُٹھانا کسی پہلو تو ذکرِ گل رُخاں ہو پھرفکر و نظر میں زلزلہ ہے آؤ کہ جسم و جاں کے شگوفے کھلائیں ہم لہو میں تلخیٔ شیریں دمِ وصال کی تھی ہم اِک اُسی کی جستجو لئے نگر نگر گئے تھاموں قلم تو سادہ ورق بھی حسیں لگے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔