آغاز ماجد صدیقی دل درد سے ہمکنار بھی ہے ہر گل کو ہم نے یوں بھی تمہارا پتہ دیا اُترا جو میری تشنہ لبی پر سحاب سا ذکر اُس کا چھیڑ بیٹھے بھی تو کس اسلوب ہم اُس سا لیکن کوئی آشنا بھی نہ تھا یہ مری تمّنا تھی مَیں کہ آج پتّھر ہوں اپنے آپ کو غیر نگہ سے جانے کب جا دیکھوں مَیں آنکھ کا سُرمہ بنی تھی ریت کیمبل پور کی لے کے بیٹھے ہیں تیرا غم تنہا رنگینیاں بکھیر گئے تم جدھر گئے حرف لکھے کُچھ، بادِ صبا نے ہم اتنا بھی سوچنے نہ پائے آج پھر چاند کی چودہویں رات ہے مَیں نہ کر پایا کبھی اپنی نظر کا سامنا ورنہ اِس شہر میں کیا کیا تھے نہ آزار ہمیں پھر کیوں نہ ہر قدم پہ نئی رہگزر ملے مَیں پھر بھی تُجھ سے تیرا پتہ پوچھتا رہا کیا کہوں ذکر ترا کیسے رواں ہوتا ہے ہم بھی کریں مداوا، یخ بستہ خامشی کا کیا کیا سلوک ہم سے چمن کی ہوا کرے یہ تحفۂ زیست تجھ کو لوٹا کے تجھ پہ احسان دھر نہ جاؤں کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے چاند اُبھرے گا مگر آخرِ شب میرے کہے پہ آپ بھروسہ نہ کیجئے سوچ پر بھی ہے گماں جب حلقۂ زنجیر کا گزر رہی ہے جو ساعت اُسے امام کریں پھر گیا رُخ کدھر ہواؤں کا ابکے لگے ہے ٹھہری وہ ٹھنڈے جل سی جی میں ہے پایۂ عرش کو تھام لوں چھوڑتا ہی نہیں اندیشۂ جاں شہد میں گھول کے سم دیتے ہیں کوئی تو راہ کا پتّھر بھی اب دکھاؤ مجھے پوچھنا حالِ سفر بھی ہوش میں آنے تو دو اور خیمے دمِ رُخصت یہ، اُڑاتے جانا ہماری سمت ہوا رُخ بھری خدائی کا ہاں مرحلہ یہ بھی دیدنی ہے دیکھ تسکین کی صورت ہے کہاں آنکھوں میں پھر وہی ہم ہیں وہی دشتِ ستم تجھ پہ ہے اَب یہ فیصلہ، چاہیئے انتہا مجھے کوئی صنم بھی تو ہو مَیں جِسے خُدا مانوں پہنچا ہے اُس کا ذکر ہر اک بُک سٹال پر ہے میّسر مجھے انساں ہونا کوئی نمو کا بھی رُخ دیجیے زمانے کو پاگل نہ بن، رُتوں کو کبھی مہرباں بھی دیکھ ہر ایک شخص سے جیسے چھپا پھروں ہوں مَیں ہاتھ مرے ہاتھوں میں دے دے جینے کا سامان کروں پھیلتے جا رہے ہیں کھنڈر سامنے اپنے اندر کے اُس شخص کو دیکھتا دبنے والی نہیں مری آواز کب یہ اُمید بھی بر آئے گی جلوہ ترا برنگِ دِگر دیکھتا رہوں جانے میں کیوں گلستاں سے بیزار تھا تو ہے عنوانِ دل، بیاں ہیں ہم لو مَیں بھی جذبات کی رَو میں کہتا ہوں تمہیں ایسی فرصت کہاں دوستو کھُل جائے گا حرفِ مدّعا بھی دل کو بے چین کر گئے نغمے ہَولے سے مرے دل میں کہیں سے اُتر آؤ چاند سا بدن اُس کا اور بھی نکھر جاتا موت کیسی؟ یہ مرا ڈر نکلا نذرِ صرصر بھی ہمیں برگ ہُوا کرتے ہیں ہمیں بھی چھیڑ کے دیکھیں تو یہ ہوائیں کبھی اے کاش یہ جان لوں کہ کیا ہوں آنے لگا ہے حرف، چمن کے جمال پر دل کا یہ زہر کسی طور تو اگلا جائے کہ ایک آن بھی خود سے جُدا نہ پاؤں تجھے یہ لمحۂ جاوید گزرنے کا نہیں ہے یہ کیفیت بھی مگر کیسے اَب سُجھاؤں اُسے نجانے کون سے جنگل میں آ بسا ہوں مَیں ذات اپنی ہی دے اُٹھی خوشبُو پھر بھی اُمّید کی آغوش ہے خالی یارو جس کا کھِلنا یا مرجھانا بس سے مرے باہر بھی نہ تھا ہاں دیکھ ہماری سادگی کو صورت کوئی بنے تو سفر ابتدا کریں کیوں کسی کو کھینچ لانے کی تمّنا میں کروں یُوں تو ہو گا یہ جی کچھ اور نڈھال اَب اپنے آپ کو یوں عُمر بھر سزا دوں گا کہ دل بھی چنگیزیِ غمِ جاں کو جیسے تسلیم کر رہا ہے ہوتا نہیں چاند کا گزر تک لیکن شکستِ عزم کا طعنہ نہ دے مجھے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔