اَکھیاں بیچ الاؤ ماجد صدیقی احساس کے تلوے میں چھپا خار کہاں ہے دھجی دھجی برگ و شجر ہیں، حال بُرا ہے نہالوں کا زوالِ عمر کے دن، ٹُوٹتے خمار کے دن شجر پہ پات تھے جتنے ، وہ زرد ہونے لگے اِنساں تھے ، سرِ کوہ کے اشجار نہیں تھے اور شور اٹھے جن گلیوں سے وہ گلیاں خون سے تر کر دو یہاں اہلِ نظر تو ہیں بہت، بیدار کم کم ہیں لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے کہ دم بہ دم ہے بہاروں کا انتظار ہمیں بَونے بانس لگا کر صاحبِ قامت ٹھہرے کس زباں سے کسی سے کہیں وہ ہیں مسافر وہ کن دلدلوں کے لوگ تماشا بننے سے کترانے لگے ہیں پر شہِ بے پیرہن کو میں نے عریاں کہہ دیا ابکے یُوں بھی کھیتیاں سیراب ہونے لگ پڑیں آسماں کیوں ٹوٹ کر نیچے نہیں آنے لگا چراغ بجھنے پہ آئے تو پھڑپھڑائے بہت وہ بڑوں کو جو بڑا کچھ اور کر گیا پسِ خیال عجب سنسنی سی شہر میں ہے ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور کِیا ہے چاک ہواؤں نے بادباں کیا کیا رگوں سے شہر کی، فاسد لہو نکلنے دو ختم ہونے ہی نہیں پاتا شجر کا انتظار وہ ستمگر پھر ڈگر پہلی سی اپنانے لگا حبس پہنچا ہے کس اَوج پر دیکھنا جہاں کے ہم مکیں ہیں، اُس نگر کی بات اور ہے جبر نے بخشی ہمیں کیا گونجتی تنہائیاں آگے انت اُس کا دیکھا ہے سورج نے کھُلی آنکھ سے ہے کم ہمیں دیکھا چِڑا رہے ہیں مرا منہ، مرے سخن کے گلاب کس نے کس کو کتنا نیچا دِکھلانا ہے زاغ جُتے دیکھے، پس خوردہ کھانے میں جا بجا تیرے لئے یہ سر، نگوں کرنا پڑا فیصلہ دیتے ہوئے عادل بھی رُسوا ہو گئے تیور بدل چلے ہیں بہت ، آسمان کے دل کیوں بیکل سا ہے اتنی دیر گئے رسوائیِ خواہش کو، ہوا اور نہ دینا تجھ سے چھینے گئے جو گہر، چھین لے شاعری ماجد! عبارت ہو اگر صدمات سے ملیں ہَوا کو اُدھر حکمرانیاں کیا کیا پئے رقص، لطفِ ہوا چاہتا ہوں ماں! ترا لاڈلا ہے مشکل میں کام مرے، کانٹوں میں اُلجھے بالوں جیسے اہلِ نظر میں بھی ہیں گویا تنگ نظر کے لوگ یزیدِ وقت نے جور و ستم کی اِنتہا کر دی سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے کُتا بھونکے تو آگے سے بھونکے کون نظر میں تھا، پہ ترا ہی وہ اک جمال نہ تھا رہ بہ رہ جھومتا ہر شجر دیکھنا پو پھٹے تھی ہوا کو شکایت یہی، لوگ سوئے ملے جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم نئی نسلوں کو لاحق ہو چلیں بیماریاں کیا کیا مرے پاس بھی کوئی گلبدن تھا بہار سا پَو پھٹے چاند سے اُس کا جوبن لُٹا اور میں کھو گیا ننّھی ننّھی خواہشیں خلقت کی، جو اغوا کریں اور نا خلف کے منہ سے مِلیں، گالیاں الگ جھونکے آگ بجھانے آئے مشتہر کرتے ہیں جنسِ دختراں اخبار میں چُوزے ہوں جیسے ماں کے پروں میں سمٹ گئے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔