آنگن آنگن رات ماجد صدیقی ہم تم جس کو جھُوٹ کہیں وُہ اُس کو سچ ٹھہرائے گا پھُول مرضی کے کسی کو نہ کھلانے دینا کس مغوی طیّارے میں محصور ہوئے ہم آپ آہن صفت درخت بھی، ریشوں میں بٹ گئے تن گیا آسماں کماں جیسا اِتنا اوچھا بھی مجھ پہ وار نہ کر انسانوں نے چکّھا ماس انسانوں کا اُمیدوں کی ٹھِٹھڑی کُونجیں کون سے دیس سُدھار چلیں ورنہ، اور گماں تھا سب کا، بھیس بدلنے والوں پر یاد تا دیر کریں گے خس و خاشاک مجھے مل بیٹھے ہیں جھیل کنارے چندا، رات اور مَیں جان بدن میں ٹوٹ چلی ہے ہر جانب ہماری اُس سے مگر، آشنائیاں نہ گئیں گھروندا بے نشاں ہونے لگا ہے خُشکیاں اپنے یہاں کی اور ہیں، نم اور ہے بے بسی اپنا مقدُور ہی جان لیں جُگ بیت گئے ماجدؔ، اِس جاں پہ عذاب آئے سُنا جائے نہ ہم سے شور پتّوں کی دُہائی کا نگہت و نُور کے سانچوں میں، نِت ڈھلتا ہوں ساون در و دیوار کو نم کرنے لگا ہے یاد سے محو ہوئے چاہنے والے کیا کیا تیرا میرا سات سمجھتی ہے یہ نکتہ ساری دُنیا، ہم نہیں کہتے کنارِ شام پرندے، شجر پہ اُترے ہیں مگر یکساں رہے کب تک، زمانے کی ہوا جاناں پّتے نے یوں بھی، پریت نبھائی ہوا کے ساتھ ڈھونڈھتے، روز کا رزق ہم تھک گئے تو بھی ہمیں نہ جنّتِ فردا پہ ٹال دے سازشوں کا وُہی نشانہ رہا مّدتوں سے وُہ کبوتر کبھی آئے، نہ گئے غارت گر ہی شاید سب سے اچّھا ہے شاخ کو، پھر ہے تبر، یاد آیا لگتا ہے یہ دل، تخت نشیں ہونے لگا ہے بھلا ہے اِسی میں کوئی لب نہ کھولے دیکھتا گُلشن میں ایسی بھی رُتیں، اے کاش! مَیں خود بھی تنگ داماں ہوں، گھر بھی تنگ داماں ہے ہم نے مزدور کے ماتھے کا پسینہ دیکھا اس سے پہلے شہر پر، ایسا ستم دیکھا نہ تھا لو کر چلے ہیں، سارے پرندے، سخن تمام پُتلیوں میں سر بہ سر بیداریاں ایسی نہ تھیں ہمارے حق میں ہوئیں، گل فشانیاں کیا کیا حساب ظالم و مظلوم کا برابر ہے انداز کہیں، کیا کیا تیور ہیں خداؤں کے سینت کے رکھیں، اور اب خواب سہانے کیا بُھر بُھری مٹی میں ہوں، جیسے جڑیں اُتری ہوئی میرے انگناں بھی آسماں اُترا کل کے اوراق میں لیجیے ہم نے بھی، فیصلہ لکھ دیا کس دن کنجِ قفس دیکھا تھا یاد نہیں ہے سبھی اچھوت ہیں ہم آپ رشتوں ناتوں میں ہمیں اس نے کبھی ہمسر نہ جانا مُنہ زور کو شکار کوئی دوسرا کرے کُھلے نہیں تھے نظر پر ابھی، عتاب اس کے تِنکا ہونے پر بھی ٹھہرے آنکھوں کا شہتیر ہمیں وُہ زلفیں وُہ چنچل چہرہ بھوُل گئے نمِ سکون سے جھولی ہوا کی خالی تھی شکم کی پرورش میں دیکھیئے مجرم ہوئے ہم بھی چاند بھی دل پہ اپنے، بار لگا نام ہمارے،کیا کیا کُچھ تاوان ہوئے فوّاروں سی پھُوٹ رہی ہے، آنگن آنگن رات انت نجانے کیا ٹھہرے اِس ناٹک، اِس افسانے کا اے آسماں! اُتار رذالت کُچھ اور بھی اتنا میٹھا ہے کہ کڑوا لاگے پیہم نگر اُمید کا، تاراج مِلا ہے نہ کچھ کہا تو سُلگنے لگی زباں کیا کیا ہم انسانوں ہی جیسے ہیں خدایا کیوں کرم تیرے لوگوں نے بانس کو بھی، ثمرور بنا دیا سارے ارکانِ سکوں، نادار ہیں اَب کے برس یہ کجکلاہی میں آپ کی ہور رہا ہے کیا کچھ حضور دیکھیں ڈھانپ سکتے ہو بھلا گرد میں خورشید کہاں شامل ہو جائیں اَب گنگوں بہروں میں کہ جیسے چاندنی چھاجوں برستی نار کے بعد آنکھوں میں آنسوؤں کے گُہر، لے کے آ گیا مُلک سے دُور، بہت دُور مِرا کام لگا جھیل میں اُس کو میں نے عریاں دیکھ لیا ہے آنکھیں پگھل چلی ہیں، اسی انتظار میں مری اور اور محیط ہیں جو ریا کے جال نہ دیکھنا خُدا سمجھتے رہے تھے جِسے صنم نکلا نظر میں تھا پہ ترا ہی، وُہ اک جمال نہ تھا کوئی جھونکا، کوئی مژدہ خوشی کا اور بچّوں کے ہاتھ میں پتّھر کیا کیا تھے بِکے نہیں ہیں، عقیدہ نہیں خراب کیا جابر جابر اپنا عِجز دکھاتا رہ ہم نے سینتے کیا کیا منظر آنکھوں میں ترّستی تھیں نگاہیں منظروں میں ڈوب جانے کو کھنچ کر لبوں پہ آنے لگی جان دیکھنا ہر شخص سے پوچھیں ہمیں آزار ہے کیسا اور اس پر عجز دکھلائے گلی کا پاسباں کیا کیا لب بہ لب اطراف میں، خاموشیاں اُگنے لگیں آندھیاں اُٹھا لائیں، پات میرے آنگن میں کہ اِس جنگل میں جو بھی آنکھ ہے ہشیار، غالب ہے وُہ کون کھلونا ہو جس سے دل بالک کو بہلائیں ہم خاموش رہا جائے، کُچھ بھی نہ کہا جائے ہمارے نام ہی موسم کی ہر پھٹکار ہو جیسے Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔