جب ہم نے سفر آغاز کیا ۔ آپ بیتی ماجد صدیقی شہرِ منوّر کی دہلیز پر ساغر کو مرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں ایک ٹکٹ میں دو تماشے جِس دی ہتھ جِس دی بانہہ آئی رُخصتی…… یُوسفِ با کارواں کی ملازمت کی سہاگ رات گربہ کشتن روز اوّل پھر اُس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی کوّا چال سے انگریزی زبان کی منافقت تک دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں بُو قلمونیاں ۔۔۔۔۔ نشیب و فراز کی صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا بِناّتُ النعش ارضی و سماوی کے درمیان کچّے دَھاگے سے کھنچی آئیگی سرکار مری ہمارا تیسرا ٹھکانہ اور ہم گلیاں ہوون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے داستاں اپنے پائنتی بدر ہونے کی یہ مسائل تصّوف ایں میرا تُلاّ اساد کنٹرپیٹ اور ہم مرداں چنیں کنند ہیں کواکب کُچھ نظرآتے ہیں کچھ دور بیٹھا غُبار میر اُس سے لوٹ جاتی ادُھر کو بھی نظر کیا کیجے کالے دھن کا بارِگراں اور توشۂ آخرت ہمہ آہوانِ صحرا تُو اور آرائش خمِ کا کل Rate this:اسے شیئر کریں:Twitterفیس بکاسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔