زنداں نامہ از فیض احمد فیض
- شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
- ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
- اے حبیبِ عنبر دست!
- سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلے
- دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
- شبِ سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رہے
- ملاقات
- وہ رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں
- دل کی حالت سنبھل چلی ہے
- واسوخت
- شوخیِ رنگِ گلستاں ہے وہی
- صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
- دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے
- اے روشنیوںکے شہر
- چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
- ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
- منتِاین و آں تو چھوٹے گی
- ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر جاتی ہے
- دریچہ
- درد آئے گا دبے پاؤں
- رنگِ رخسار کی پھوہار گری
- Africa Come Back
- گل کھلے جاتے ہیں وہ سایہء در تو دیکھو
- یہ فصل امیدوں کی ہمدم
- بنیاد کچھ تو ہو
- کوئی عاشق کسی محبوبہ سے
- کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے
- کوچہء یار سے بے نیلِ مرام آتا ہے
- ہر اک صدا میں ترے حرفِ لطف کا آہنگ
- تمہاری یاد سے دل ہمکلام رہتا ہے
- تو صبح جھوم کے گلزار ہو گئی یکسر
- کیا خبر آج خراماں سرِگلزار ہے کون
- نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے
- آگ سلگاو آبگینوں میں