شامِ شہریاراں از فیض احمد فیض
- دراز دستیِ پیر مغاں کی نذر ہوا
- جس روز قضا آئے گی
- ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے
- کوئی ٹھکانہ بتاؤ کہ قافلہ اترے
- اشک آباد کی شام
- مرے درد کو جو زباں ملے
- پاؤں سے لہو کو دھو ڈالو
- سجاد ظہیر کے نام
- اے شام مہرباں ہو
- چلو پھر سے مسکرائیں
- ہم تو مجبور تھے اس دل سے
- تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا
- ڈھاکہ سے واپسی پر
- یہ موسِمِ گرچہ طرب خیز بہت ہے
- بہار آئی
- تم اپنی کرنی کر گزرو
- موری اَرج سُنو
- یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی
- جو دل دکھا ہے بہت زیادہ
- دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے
- لینن گراڈ کا گورستان
- پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا
- کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
- درِ اُمید کے دریوزہ گر
- آج اِک حرف کو پھر ڈھونڈتا پھرتا ہے خیال
- کس پر نہ کھُلا راز پریشانیِ دل کا
- وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا