غبارِ ایّام از فیض احمد فیض
- تُم ہی کہو کیا کرنا ہے
- عشق اپنے مجرموں کو پابجولاں لے چلا
- نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
- باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمانِ وفا اور
- ایک نغمہ کربلائے بیروت کے لیے
- ایک ترانہ مجاہدینِ فلسطین کے لیے
- یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا
- اس وقت تو یُوں لگتا ہے
- درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے
- ہجر کی راکھ اور وصال کے پھول
- یہ کس دیارِ عدم میں ۔ ۔ ۔
- احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے
- بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے
- رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم
- جو میرا تمہارا رشتہ ہے
- آج شب کوئی نہیں ہے
- دل میں پتھر کی طرح بیٹھ گئی
- پہلو میں لیے پھرتے ہیں جو درد کسی کا
- ترک شاعر ناظمِ حکمت کے افکار
- اِدھر نہ دیکھو
- پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے
- رنگ چھڑکا گیا تختۂ دار پر
- اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے
- متاعِ درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے
- شامِ غربت
- نعت