فیض کی تمام غزلیں ۔ بالحاظ ردیف غیر مردّف خونِ تمنا دریا دریا، دریا دریا عیش کی لہر عشق منت کش فسون نیاز ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم ہر اک صدا میں ترے حرفِ لطف کا آہنگ جب چاہا کر لیا ہے کنجِ قفس بہاراں ٹھہر ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں، کبھی قربتیں جو دل دکھا ہے بہت زیادہ جس بار خزاں آئی، سمجھے کہ بہار آئی دل میں پتھر کی طرح بیٹھ گئی عبائے شیخ و قبائے امیر و تاج شہی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے شبِ فراق کے گیسو فضا میں لہرائے سِل گئے ہونٹ ، کوئی زخم سِلے یا نہ سلے کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے ا صنم دکھلائیں گے راہِ خدا ایسے نہیں ہوتا ہم تہی دامنوں سے کیا لینا دراز دستیِ پیر مغاں کی نذر ہوا پہلو میں لیے پھرتے ہیں جو درد کسی کا کس پر نہ کھُلا راز پریشانیِ دل کا پھر دل کے آئینے سے لہو پھوٹنے لگا یہ شہر اداس اتنا زیادہ تو نہیں تھا کیا روشن ہو جاتی تھی گلی جب یار ہمارا گزرے تھا جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا پھر آج کس نے سخن ہم سے غائبانہ کیا تم آشنا تھے تو تھیں آشنائیاں کیا کیا وہ پڑی ہیں روز قیامتیں کہ خیالِ روزِ جزا گیا جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آگئی، جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا ب دل میں بکھری کوئی خوشبوئے قبا آخر شب ح فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح ر کِھلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ و بُو سے پُر تو صبح جھوم کے گلزار ہو گئی یکسر باندھا تھا کوئی یاروں سے پیمانِ وفا اور رنگ چھڑکا گیا تختۂ دار پر چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر گ یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ م اِک قدح ساقیِ مہوش جو کرے ہوش تمام موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام آئو کہ حسن ماہ سے دل کو جلائیں ہم سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم رات ملتے رہے اپنے در و دیوار سے ہم ن کیا خبر آج خراماں سرِگلزار ہے کون ں ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں ہم کس کی امانت میں غمِ کارِ جہاں دیں غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں آگ سلگاو آبگینوں میں ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سر شام بجھ گئے ہیں جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں پھر آج کوئے بتاں کا ارادہ رکھتے ہیں وہ اِک خلش کہ جسے تیرا نام کہتے ہیں جو عُمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہگار کھڑے ہیں قریب ان کے آنے کے دن آرہے ہیں وہ رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں حسن مجبور انتظار نہیں صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں کہ جن دنوں سے مجھے تیرا انتظار نہیں وہ مجھ سے روٹھے تو تھے لیکن اس قدر بھی نہیں و عشق کے دم قدم کی بات کرو کاسہء چشم میں خوں نابِ جگر لے کے چلو گل کھلے جاتے ہیں وہ سایہء در تو دیکھو کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو ہ لطفِ سخن، کچھ اس سے زیادہ ی اب کے بھی دل کی مدارات نہ ہونے پائی دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی مگر دل ہے کہ اس کی خانہ ویرانی نہیں جاتی رنگِ رخسار کی پھوہار گری نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہن کی سی ضبط کا حوصلہ نہیں باقی شکر ہے زندگی تباہ نہ کی سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہو گی منتِاین و آں تو چھوٹے گی یہ تیغ اپنے لہو میں نیام ہوتی رہی نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی شوخیِ رنگِ گلستاں ہے وہی ے اس کے بعد آئے جو عذاب آئے پھر اپنی نظر شاید تا حدِّ نظر جائے کنارے آ لگے عمرِ رواں یا دل ٹھہر جائے کافروں کی نماز ہوجائے جو قاتل تھے مقتول ہوئے، جو صید تھے اب صیّاد ہوئے تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرِ رہگزار چلے گئے علاجِ درد ترے درد مند کیا کرتے تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے اب تو ویرانہ بھی ویراں نہیں کرنے دیتے دست قدرت کو بے اثر کردے کوئی ٹھکانہ بتاؤ کہ قافلہ اترے پھر نور سحر دست و گریباں ہے سحر سے دشتِ اُمّید میں گرداں ہیں دوانے کب سے چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلے دھوکے دئیے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے شب و روزِ آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے وہ جارہا ہے کوئی شب غم گزار کے کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے بے نشاں ہو گئے جب شہر تو گھر جائیں گے احرار کبھی ترکِ روایت نہ کریں گے ہم سے جتنے سخن تمہارے تھے جو ان کی مختصر روداد بھی صبر آزما سمجھے جانے کس کس کو آج رو بیٹھے درباں کا عصا ہے کہ مصنّف کا قلم ہے اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے کوچہء یار سے بے نیلِ مرام آتا ہے عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے تمہاری یاد سے دل ہمکلام رہتا ہے قاصدا ، قیمتِ گلگشتِ بہاراں کیا ہے متاعِ درد بہم ہے تو بیش و کم کیا ہے کوئی بھی حیلۂ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے وہ مضمحل حیا جو کسی کی نظر میں ہے ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر جاتی ہے تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے دل کی حالت سنبھل چلی ہے آشنا شکل ہر حسیں کی ہے نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگا ہ ہم پہ عدو کی ہے ہر قدم ہم نے عاشقی کی ہے یا شمع پگھل رہی ہے نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے شبِ سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رہے جب تلک ساتھ ترے عمرِ گریزاں چلیے Rate this:اسے شیئر کریں:Click to share on Twitter (Opens in new window)Click to share on Facebook (Opens in new window)اسے پسند کریں:پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔