دستِ صبا از فیض احمد فیض
- 16 دسمبر 1952
- اے دلِ بیتاب ٹھہر!
- سیاسی لیڈر کے نام
- مرے ہمدم، مرے دوست
- صبح آزادی اگست 47ء
- لوح و قلم
- کہ جن دنوں سے مجھے تیرا انتظار نہیں
- ٹھہر ٹھہر کے یہ ہوتا ہے آج دل کو گماں
- شورشِ بربط و نَے
- دامنِ یوسف
- بیٹھے ہیں ذوی العدل گنہگار کھڑے ہیں
- طوق و دار کا موسم
- نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہن کی سی
- سرِ مقتل
- تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے
- کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں
- عبائے شیخ و قبائے امیر و تاج شہی
- شبِ فراق کے گیسو فضا میں لہرائے
- ۔۔۔۔۔۔تمہارے حسن کے نام
- ترانہ
- عشق کے دم قدم کی بات کرو
- ذکرِ مرغانِ گرفتار کروں یا نہ کروں
- دو عشق
- علاجِ درد ترے درد مند کیا کرتے
- وہ اِک خلش کہ جسے تیرا نام کہتے ہیں
- موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
- نوحہ
- ایرانی طلبا کے نام
- جیسے بچھڑے ہوئے کعبے میں صنم آتے ہیں
- اگست 1952ء
- نثار میں تیری گلیوں کے
- جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے
- شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں
- اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
- پھر آج کوئے بتاں کا ارادہ رکھتے ہیں
- آشنا شکل ہر حسیں کی ہے
- زنداں کی ایک شام
- زنداں کی ایک صبح
- یاد
- جب چاہا کر لیا ہے کنجِ قفس بہاراں
- سب کچھ نثارِ راہِ وفا کر چکے ہیں ہم
- اپنالی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے